تعلیمی اداروں میں مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک  کا شکار

جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر اور دیگر ذمہ داران جماعت نے متعدد ملک گیر مسائل پر گفتگو کی،اسلامو فوبیا کے پھیلتے زہر پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی02 ستمبر :۔

اسلامو فوبیا کا زہر  اب پورے ملک میں پھیل گیا ہے ، یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی اس سے اچھوتے نہیں رہے۔اس سلسلے میں مغربی یوپی میں مظفر نگر کا واقعہ قابل ذکر ہے جہاں ایک  مسلم بچے کو اس کے ہی ہم جماعت ساتھیوں سے پٹوایا گیا اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا تبصرہ کیا گیا۔

مذکورہ خیالات کا اظہار    آج جماعت اسلامی ہند کی جانب سے منعقدہ  ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے کیا۔پریس کانفرنس کے دوران جماعت کے دیگر ذمہ داران میں  نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی، میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل اور ‘انڈیا ٹومارو’ کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے شرکت کی۔

نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی ہند ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء شدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی حالیہ مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباء سے پٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباء کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔  اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔  اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔  جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پرفائز افراد کے ذریعہ اپنائی گئی خاموشی کی پالیسی، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے خلاف بولنے سے بچنے کا رویہ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر عدم تحمل اور پولرائزیشن کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔  جماعت چاہتی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں،  اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو ایک سماجی برائی مان کر اس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین تیار کرے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اکثریتی برادری میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوششیں کریں،  اس سلسلے میں میڈیا  اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

منی پور میں ہو رہے تشدد پر بھی جماعت نے تشویش کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے منی پور کا دورہ کیا۔ اس وفد میں جماعت کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی اور عبد الحلیم  پھندریمیم شامل تھے۔ وفد نے وہاں جن حقائق کی معلومات حاصل کی، وہ درج  ذیل ہیں:  منی پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 65 ہزار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں  جن میں 14 ہزار بچے ہیں۔ ان  میں سے اکثر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ تشدد کے دوران 198 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئی۔ جہاں تک معاشی نقصان کی بات ہے توفی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔  منی پور میں پھوٹنے والا پرتشدد فساد کا ہنوز کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ وزیر اعظم نے ابھی تک ریاست کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سلگتے ہوئے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہے ۔

نئے فوجداری قوانین پر شرکا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کئے ہیں جن کا مقصد فوجداری نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تینوں بل آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان بلوں کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ یہ ترامیم نظامِ عدل اور عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عوامی آراء اور ان کے رجحانات کو معلوم کئے بغیر جلد بازی میں کی گئی اس طرح کی تبدیلیوں سے قانونی فریم ورک میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانونی پیشہ ور افراد اور عوام کے لئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔

اس موقع پر  جماعت اسلامی ہند نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر تشویش کا اظہارکیا۔ شرکا نے کہا کہ’ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا  پروٹیکشن بل  2023‘، ایک ایسا بل ہے جس سے حکومت  کے ذریعہ کی جانے والی نگرانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بل کے بموجب شہریوں کے ڈیٹا کی رازداری سے سمجھوتہ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بل کمپنیوں کو کچھ صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو اب یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فرموں سے افراد کے ذاتی ڈیٹا  ان کی رضامندی کے بغیر حاصل کرے اور مرکزی حکومت  کے ذریعہ مقرر کردہ بورڈ  (ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ)  کے مشورے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں کے پوسٹ کردہ مواد کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کرے۔جبکہ ایسا کرنا ملک کے باشندوں کی شہری آزادی کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کمزور ہوگی۔

اس کے علاوہ پریس کانفرنس کے دوران شرکا نے  نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اور ہماچل ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات  پر بھی گفتگو کی۔