تریپورہ میں فرقہ وارانہ تشد دکیخلاف سخت کارروائی کی جائے:ملک معتصم خان

مسلمانوں کو نشانہ بنا کر حملے پر نائب امیر جماعت اسلامی ہند کا اظہار تشویش ،اپوزیشن اور حکومت کی غیر سنجیدگی پر اظہار افسوس

نئی دہلی31 اگست :۔

تری پورہ میں گزشتہ روز 25 اگست کو فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا ۔جس میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں اور مکانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔جس کی وجہ سے متاثرہ علاقے کے تیس سے زیادہ خاندان بے گھر ہو گئے ۔مگر افسوس اس فساد پر میڈیا اور سیاسی گلیاروں میں کوئی ہلچل نظر نہیں آئی ۔ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے اس افسوسناک واقعہ پر اپوزیشن ، حکومت اور میڈیا کی خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور تشدد کے قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خاں اور مرکزی سکریٹری جناب شفیع مدنی کی جانب سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں تریپورہ کے رانیر بازار میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد پر گہرے رنج  وافسوس کا اظہار کیا گیا اور ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر حقائق کا پتہ لگا کر گنہگاروں کو سزا اور متاثرین کو مناسب تعاون فراہم کرے۔

میڈیا کو جاری بیان میں نائب امیر ملک معتصم خاں نے کہا کہ ’’ 25 اگست 2024 کی رات کو تریپورہ کے درگا نگر ، کوئیٹورا باری اور رانیر بازار کے دیہاتوں میں واقع ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ یہ تشدد مسلم خاندانوں کو نشانہ بنا کر کیا گیا جس کے نتیجے میں تقریبا 30 خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔ سماج دشمن عناصر کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف اس  وحشیانہ حملہ نے تریپورہ کی صورت حال کو بےحد خراب کردیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد کے وقت ایک ریاستی وزیر اور مقامی حکام بھی جائے واردات پر موجود تھے لیکن وہ تشدد کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ خطے میں امن کی بحالی کے لیے ریاستی حکومت فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے والے گروہ کے خلاف سخت موقف اختیار کرے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کچھ لوگ پروپیگنڈہ کرکے مسلم طبقے کے خلاف  جھوٹے الزامات لگاتے ہیں اور پھر انتقامی کاروائی کے نام پر تشدد کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ نفرت و تشدد پر مبنی یہ مہم قابل مذمت ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ریاست میں نفرت کا یہ کھیل کھیلا جارہا ہے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ متاثریں کی نہ تو کوئی مدد کررہے ہیں اور نہ ہی انہیں  امن و تحفظ کی یقین دہانی کرارہے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بھی کوئی ٹھوس رد عمل نہ آنے کی وجہ سے اس سنگین صورت حال سے نمٹنے میں انتظامیہ کی کوتاہیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو اس تشدد کے ایک بڑے فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کر لینے کا بھی خدشہ ہے‘‘۔

مرکزی سکریٹری شفیع مدنی نے کہا کہ ’’ متاثرین کے پاس نہ رہنے کے لیے گھر ہے، نہ کھانے کے لیے مناسب خوراک۔ وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو گئے ہیں اور ان سب پر متزاد مقامی انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں تک رسائی کے تمام راستے بند کردیئے ہیں، امدادی سرگرمیوں میں ایک طرح سے روکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور میڈیا کو بھی آزادانہ رپورٹنگ سے روکا جارہا ہے۔ یہ رویہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ان پابندیوں کو فوری طور پر ہٹا یا جائے تاکہ فلاحی و رفاہی تنظیمیں متاثرہ خاندانوں تک امداد پہنچا سکیں۔ تریپورہ میں امن اور سلامتی کی بحالی کے لیے ریاستی حکومت کو فوری اقدامات اور تشدد کو روکنے کے لیے مناسب سیکورٹی فورسز کو تعینات کرنا چاہئے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہم متاثرہ علاقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور تمام طبقات کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ متاثرہ  علاقے میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل کوششیں کرنی ہوں گی۔ جماعت اسلامی ہند اپنی دیرینہ پالیسی و روایات کے مطابق متاثرین کی مدد کے لیے پُرعزم ہے اور خطے میں دیرپا امن، انصاف اور مفاہمت کےلیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ ہم سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ متاثرین کے لیے انصاف کی بحالی کے مطالبے میں ہمارا ساتھ دیں۔