
ترکیہ اور آذربائیجان کا بائیکاٹ!
بھارتی سیاحوں کی غیر موجودگی سے انقرہ کو 291 ملین ڈالر کا نقصان،ترکیہ میں بھارتی سرمایہ کاری اور ایوی ایشن معاہدوں پر نظر ثانی کا امکان
پروفیسر ظفیر احمد،کولکاتہ
حالیہ بھارت-پاکستان جھڑپ کے دوران ترکیہ اور آذربائیجان کی جانب سے پاکستان کی کھلے عام حمایت کے بعد ان دونوں ممالک کے بائیکاٹ کی جو مہم چل رہی ہے، اسے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ترکیہ ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دیتا رہا ہے اور اس جنگی مہم کے دوران بھی اس نے پاکستان کو جنگی ساز و سامان اور ڈرون مہیا کیے۔
جہاں ایک طرف ہم چین کی جارحیت کے خلاف چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، وہیں ترکیہ نے محض مذہبی بنیاد پر پاکستان کا ساتھ دیا اور یہ بھول گیا کہ جب وہاں زلزلے کی شدید تباہی آئی تھی تو بھارت نے انسانیت اور دوستی کے ناطے بڑی امداد فراہم کی تھی۔
2022-23 میں بھارت اور ترکیہ کے درمیان باہمی تجارت 13.8 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی۔ دوسری جانب بھارت آذربائیجان سے خام تیل درآمد کرتا ہے، اور 2023 میں وہ خام تیل خریدنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر تھا لیکن تاجروں کی تنظیم "کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز (CAIT)” نے ان دونوں ممالک کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اسی کے تحت پونے کے تاجروں نے ترکیہ سے سیب درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ادے پور کے سنگ مرمر کے کاروباریوں نے ترکیہ کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کا اعلان کیا ہے، اندور کے ٹرانسپورٹ تاجروں نے ان ممالک کو بھیجی جانے والی اشیاء کی ترسیل بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے ترکیہ کی "اینونو یونیورسٹی” کے ساتھ کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔
ابھی تک بھارتی سیاحوں نے ان دونوں ممالک کی 50 فیصد بکنگ منسوخ کر دی ہے اور وہاں فلموں کی شوٹنگ کے لیے نہ جانے کا مشورہ بھی دیا جا رہا ہے۔ بھارتی سیاحوں کے بائیکاٹ سے ترکیہ اور آذربائیجان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے، کیونکہ ان کی جی ڈی پی کا بڑا حصہ سیاحت پر منحصر ہے۔
گزشتہ سال ان دونوں ممالک نے بھارتی سیاحوں سے تقریباً چار ہزار کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی تھی۔ اس بائیکاٹ کا پیغام یہ ہے کہ دہشت گردی اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔
جب مالدیپ نے بھی بھارت مخالف رویہ اختیار کیا تھا تو بھارتی سیاحوں نے فوری طور پر اس کا بائیکاٹ کیا، جس کے بعد مالدیپ کو اپنے مؤقف میں نرمی لانی پڑی۔
ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف عوامی غصے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دی ہے۔ اسی لیے انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آئندہ چند دنوں میں بھارتی سیاحوں کی تعداد، ڈیسٹینیشن ویڈنگز کے انعقاد اور فلموں کی شوٹنگ میں نمایاں کمی آنے کا امکان ہے، کیونکہ حکومت بھارتیوں کو ان ممالک کے سفر میں کمی کی تلقین کر سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق، ترکیہ اور آذربائیجان نے حالیہ جھڑپ میں پاکستان کا سرگرمی سے ساتھ دیا تھا، اور بھارت کے "آپریشن سندور” کے تحت پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (POK) میں دہشت گرد کیمپوں پر حملے کی مذمت کی تھی۔جنگی جھڑپ کے دوران پاکستان نے ترکیہ کے فراہم کردہ "سونگا راسیسن گارڈ ڈرونز” کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ ترکیہ کی اس حرکت پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں نے ترکیہ کی یونیورسٹیوں کے ساتھ اپنے تعلیمی معاہدے معطل یا مؤخر کر دیے ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ہر سال بڑی تعداد میں بھارتی سیاح ترکیہ اور آذربائیجان کا سفر کرتے ہیں اور ان دونوں ممالک کو اس سے خاطر خواہ آمدنی ہوتی ہے۔ حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اپنے شہریوں کو ان ممالک کے سفر سے روکا جائے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چین وہی ملک ہے جو پاکستان کو غیر مشروط حمایت فراہم کرتا ہے اور سب سے زیادہ فوجی ساز و سامان وہی سپلائی کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے الٹرا نیشنلسٹ عناصر چین کے معاملے میں خاطر خواہ سرگرمی نہیں دکھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چین کئی برسوں سے ہماری سرزمین پر قابض ہے۔
امیر بھارتی اور غیر مقیم بھارتی (NRIs) بھی اکثر ان ممالک میں شادیاں منعقد کرتے ہیں، جو اب فیشن بن چکا ہے۔ یہاں کی قدرتی خوبصورتی، جاذب کیفے، شاندار ریستوران اور دیگر سہولیات کی وجہ سے یہ ممالک ان کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، بھارتی شہری ڈیسٹینیشن ویڈنگز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں جو ان ممالک کے لیے بڑی آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب غور کیا جا رہا ہے کہ ان سرگرمیوں کو کس طرح محدود کیا جائے تاکہ ان ممالک کو پاکستان کی حمایت کا خمیازہ پہنچے۔”فیڈریشن آف ویسٹرن انڈیا سنی سپلائیز (FWICE)” اور "آل انڈیا سنی ورکرس ایسوسی ایشن (AICWA)” نے بھارتی اداکاروں اور فلم سازوں سے اپیل کی ہے کہ ترکیہ کے پاکستان حمایتی رویے کی وجہ سے وہاں فلم شوٹنگ نہ کریں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ترکیہ اور آذربائیجان میں فلم شوٹنگ کرنے والے فلم سازوں کو حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مالی یا تکنیکی مدد نہیں دی جائے گی۔ اندازاً 2023 میں تقریباً تین لاکھ بھارتی سیاح ترکیہ اور دو لاکھ آذربائیجان گئے تھے۔اپریل-فروری 2024-25 کے دوران ترکیہ کو بھارت کی برآمدات کا حجم 5.2 ارب امریکی ڈالر رہا، جبکہ 2023-24 میں یہ 6.65 ارب ڈالر تھا۔
کیٹ کے جنرل سکریٹری اور دہلی کے چاندنی چوک سے بی جے پی کے رکن پارلیمان پروین کھنڈیلوال نے اعلان کیا کہ اگر بھارتی شہری ترکیہ اور آذربائیجان کی پاکستان نوازی کے خلاف ان کے سفر کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو ان ممالک کی معیشت اور سیاحت پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ تاجر رہنماؤں کی قومی کانفرنس میں اس بائیکاٹ کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔ کیٹ، اس بائیکاٹ کو فروغ دینے کے لیے ٹریول اینڈ ٹور آپریٹرز اور دیگر متعلقہ اداروں سے مل کر یہ مہم چلائے گی۔
پروین نے بتایا کہ 2024 کے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق کل 62 ملین غیر ملکی شہریوں نے ترکیہ کا دورہ کیا، جن میں تنہا بھارت سے تقریباً تین لاکھ سیاح شامل تھے۔ 2023 کے مقابلے میں بھارتی سیاحوں کی تعداد میں 20.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ کھنڈیلوال کے مطابق ترکیہ کی کل سیاحتی آمدنی 61.1 ارب ڈالر ہے جس حساب سے ہر بھارتی سیاح کا اوسط خرچ 972 ڈالر بنتا ہے۔
پروین کے مطابق، اگر بھارتی سیاحوں نے ترکیہ کا بائیکاٹ کیا تو ترکیہ کو تقریباً 291.6 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔ اس کے علاوہ، بھارتی سیاحوں کی جانب سے منعقد کی جانے والی شادیوں، کارپوریٹ پروگراموں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے منسوخ ہونے سے مزید بلا واسطہ معاشی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
کنفڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز (CAIT) کی قیادت میں دہلی میں جمع چوبیس ریاستوں کے تاجروں نے ترکیہ اور آذربائیجان سے تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں، سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ ترکیہ کے حالیہ رویے کے باعث، حکومت ترکی میں واقع ‘سیلیبی ایوی ایشن’ (Çelebi Aviation) کو دیے گئے کنٹریکٹ پر نظرِثانی کرنے جا رہی ہے۔ یہ ادارہ بھارت کے نو ہوائی اڈوں، جن میں دہلی اور ممبئی بھی شامل ہیں، پر سیکیورٹی خدمات انجام دیتا ہے۔
ابھی یہ طے نہیں کہ حکومت معاہدے سے کب تک علیحدگی اختیار کرے گی لیکن جس طرح جنوری 2024 میں مالدیپ کا معاشی بائیکاٹ کرکے اس کی معیشت کو دھکا پہنچایا گیا تھا، اسی طرز پر ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف بائیکاٹ کا منصوبہ زیر غور ہے۔ تاہم، ملک کی سب سے بڑی ایئر لائن انڈیگو نے گزشتہ جمعرات کو کہا کہ ترکش ایئر لائنز کے ساتھ اس کی شراکت داری بھارتی مسافروں اور ملک کی معیشت کے لیے کئی حوالوں سے فائدہ مند ہے، کیونکہ اس سے بین الاقوامی سفری سہولیات میں بہتری آتی ہے اور سفر مزید کفایتی ہو جاتا ہے۔
انڈیگو کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب پورے ملک میں ترکیہ کے خلاف بائیکاٹ کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ ترکیہ کے محلِ وقوع کے باعث، ترکش ایئر لائنز امریکہ اور یورپ کے 40 سے زائد مقامات تک کوڈ شیئر نشستیں فراہم کرتی ہے۔ انڈیگو کے ایک افسر نے کہا کہ ترکیش ایئر لائنز کے ساتھ شراکت سے بھارتی مسافروں اور ملک کی معیشت کو نمایاں فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
بھارت نے حالیہ فوجی کشیدگی اور آپریشن سِندور کے بعد پاکستان کے حامی ممالک، خصوصاً چین کے خلاف سفارتی اور معاشی دباؤ بڑھانے کا منصوبہ بھی تیار کیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بھارت، چین کے ساتھ چھ سے سات سرمایہ کاری منصوبوں کا از سرِ نو جائزہ لینے جا رہا ہے جس سے ان کی منظوری میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، مرکزی حکومت چینی کمپنیوں کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی جانچ کے عمل کو مزید سخت بنانے پر غور کر رہی ہے، جس سے چینی کمپنیوں کو کام شروع کرنے سے پہلے سخت مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چین وہی ملک ہے جو پاکستان کو غیر مشروط حمایت فراہم کرتا ہے اور سب سے زیادہ فوجی ساز و سامان وہی سپلائی کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ چین نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے الٹرا نیشنلسٹ عناصر چین کے معاملے میں خاطر خواہ سرگرمی نہیں دکھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چین کئی برسوں سے ہماری سرزمین پر قابض ہے۔
آر پی جی انٹرپرائز کے چیئرمین ہرش گوئنکا نے اپنے ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ بھارتیوں نے گزشتہ سال ترکیہ اور آذربائیجان کو سیاحت کے ذریعے تقریباً چار ہزار کروڑ روپے دیے جس سے ان ممالک میں روزگار، ہوٹل انڈسٹری، شادیوں کی تقریبات اور پروازوں میں اضافہ ہوا۔ لیکن آج یہی دونوں ممالک پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دنیا اور بھارت میں کئی خوبصورت اور دلکش مقامات موجود ہیں، اس لیے بھارتیوں کو ترکیہ اور آذربائیجان کو خیر باد کہنا چاہیے۔
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں کیا پالیسی اختیار کرتی ہے۔ ادھر آر ایس ایس سے وابستہ تھنک ٹینک سودیشی جاگرن منچ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترکیہ پر معاشی پابندیاں عائد کرے۔ اس کے ساتھ ہی شیوسینا (ادھو) نے دھمکی دی ہے کہ ترکیہ کی وہ کمپنیاں جو ممبئی ایئرپورٹ سمیت ملک کے کئی ہوائی اڈوں پر کام کر رہی ہیں، انہیں باہر کا راستہ دکھایا جائے۔ترکیہ کے وزیرِ مالیات محمت شِم شک نے یورپین بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیولپمنٹ کی سالانہ میٹنگ میں اعتراف کیا ہے کہ حالیہ جیو پولیٹیکل کشیدگیوں نے ترکیہ کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔