تبلیغ جماعت پر عدالت کا فیصلہ،کیا کردار کشی کرنے والوں کو سزا ملے گی؟

تبلیغی جماعت کو عدالت سے کلین چٹ ،در اصل گودی میڈیا کے منہ پر طمانچہ ہے ،کیا گودی میڈیا،دہلی پولیس اورکیجریوال  معافی مانگیں گے؟

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،19 جولائی:۔

پانچ سال قبل جب پوری دنیا کووڈ 19 سے نبر د آزما تھی اور دنیا بھر میں اس وبا پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا،اس کے سد باب کیلئے راہیں تلاش کی جا رہی تھیں وہیں وطن عزیز کا متنفر طبقہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں سر گرم تھا۔خاص طور پر اس نے تبلیغی جماعت کو ہدف بنا کر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی  ایسی فضا قائم کی کہ آج تک اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔اس نفرتی  گروہ نے ایک طرح سے اس جانلیوا وبا  کووڈ19 کے سد باب تلاش کرنے کے بجائے اس  وبا کے مذہب کا تعین کر دیا تھا۔حکومت اور انتظایہ نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا اس سے بڑھ کر میڈیا نے بھی اس نفرت کو چار چاند لگائے اورتبلیغی جماعت کے خلاف ملک بھر میں مقدمات درج کئے گئے گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ایسی دھر پکڑ اور گرفتاریاں ہو رہی تھیں گویاکوئی دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہوں۔ آج پانچ سال بعد دہلی ہائی کورٹ نے پولیس اور انتظامیہ کے ذریعہ درج کئے گئے 16 مقدمات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس مقدمہ کو مزید آگے بڑھانا گویا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جس کا مطلب تھا کہ پولیس تبلیغی جماعت کے خلاف جن الزامات کے تحت مقدمات درج کئے تھے ان میں ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں نا کام رہی اور جن دفعات کے تحت مقدمے درج کئے گئے وہ بے بنیاد تھے۔دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف تبلیغی جماعت کی برات کا اظہار ہے بلکہ ان نفرتی میڈیا اور گودی میڈیا کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی ہے۔

دہلی ہائی کورٹ نے مارچ 2020 میں تبلیغی جماعت میں شامل غیر ملکی شہریوں کو اپنے یہاں ٹھہرانے کے الزا م میں درج مجرمانہ معاملوں کو خارج کرتے ہوئے 70 بھارتی شہریوں کو بڑی راحت دی ہے ۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان لوگوں کے خلاف کووڈ19 ضابطوں کی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے ایسی کسی سرگرمی میں حصہ لیا جس سے وبا پھیلنے کا اندیشہ ہو۔لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق  جسٹس نینا بنسل کرشنا نے 17 جولائی کو سنائے  اپنے فیصلے میں کہا کہ پوری چارج شیٹ میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ عرضی گزارکووڈ19 پازیٹیو پائے گئے تھے یا لاک ڈاؤن کے بعد مرکز سے باہر نکلے تھے یا انہوں نے ایسی کوئی لاپروائی برتی جس سے بیماری پھیل سکتی تھی۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ ان الزامات نے 3 اپریل 2020 سے کوارنٹائن کے دوران کووڈ19 ٹیسٹ کرایا تھا اور تمام رپورٹ نگیٹیو آئی تھیں۔ انہیں ڈاکٹروں کی نگرانی میں آئیسولیشن میں رکھا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ ان کے خلاف درج چارج شیٹس اور کارروائی عدلیہ کی کارروائی کا غلط استعمال ہے اور اسے آگے بڑھانا مناسب نہیں ہوگا۔ عدالت نےکہا کہ  چارج شیٹس اور ان سے متعلقہ تمام کارروائیوں کو رد کیا جاتا ہے اور عرضی گزار کو بری کیا جاتا ہے ۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران نظام الدین مرکز میں ٹھہرے غیر ملکی شہریوں کو اپنے یہاں پناہ دی حالانکہ عدالت نے پایا کہ عرضی گزار لاک ڈاون نافذ ہونے سے پہلے ہی مرکز میں موجود تھے اور پابندیوں کے نافذ ہونے کے بعد وہاں سےباہر نکلنا ممکن نہیں تھا یہ لوگ مجبور تھے جنہیں لاک ڈاون کے سبب وہیں رہنا پڑا۔ ان کے خلاف کوئی مجرمانہ ارادہ نہیں تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ وبائی امراض سے متعلق دفعہ 1897 اور دفعہ 2005 کے تحت ان لوگوں کے خلاف کوئی خلاف ورزی ثابت نہیں ہوتی۔

جسٹس نینا بنسل کرشنا کے ذریعہ کھلی عدالت میں سنایا گیا یہ فیصلہ اس  باب کو بند کر نے کیلئے کافی ہے  جس میں ایک مسلم کمیونٹی کو غیر منصفانہ طور پر مورد الزام ٹھہرایا گیا، مجرم قرار دیا گیا اور ان کی توہین کی گئی۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کےاعتراف کو ظاہر کرتا ہے کہ جنہیں وبائی امراض  کے ردعمل کے ابتدائی دنوں میں، نہ صرف قانونی لحاظ سے بلکہ عوام کی نظروں میں بھی قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ ٹیلی ویژن نیوز چینلز (گودی میڈیا) نے اس معاملے کو سنسنی خیز بنانے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ میڈیا، خاص طور پر جنہیں اکثر "گودی میڈیا” کہا جاتا ہے، نے ایک مسلسل اور ٹارگٹڈ مہم چلائی۔ تبلیغی جماعت کو”سپر اسپریڈرز” کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیااور پوری مسلم  قوم کی توہین کی گئی۔تبلیغی جماعت کی کردار کشی کی گئی ۔ دنوں اور ہفتوں تک، پرائم ٹائم ٹیلی ویژن نفرت انگیز کوریج، اشتعال انگیز زبان، اور فرقہ وارانہ لہجے سے بھرا ہوا تھا، جیسےکورونا  وائرس کا کوئی مذہب ہو۔کورونا جہاد کی اصطلاح تخلیق کی گئی۔اور پورے ملک میں کوران پھیلانے والے گروہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

اس مسلسل میڈیا ٹرائل نے ملک بھر میں ایک خطرناک سلسلہ وار ردعمل کو جنم دیا۔ نفرت اور غلط معلومات سے بھرے ہیش ٹیگز سوشل میڈیا پرتبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف چلائے گئے ۔ فرقہ وارانہ جعلی خبروں کی ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔ عام مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ، شکوک اور یہاں تک کہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ دکانداروں پر حملہ کیا گیا۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے مسلمانوں کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ مساجد کو نگرانی میں لایا گیا۔نہ صرف شہروں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی ہندو اکثریت آبادی نے مسلمانوں کی آمدبلکہ راستوں سے ان کے گزرنے پر پابندی عائد کر دی،راستے بند کر دیئے،کاروبار کا بائیکاٹ کیا گیا۔سرکاری راشن کی دکانوں پر ہندو اور مسلمانوں کے لئے الگ لائنیں اور وقت کا تعین کیا گیا۔الغرض ایسی فضا قائم کی گئی جہاں صرف تبلیغی جماعت کا رکن نہیں بلکہ مسلمان ہونا بھی جرم ہو گیا۔

اس ہسٹیریا کے درمیان، کسی ذمہ دار حکومت سے  توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اس معاملے کو سنبھالے اور حالات کو نارمل کرے لیکن    اروند کیجریوال کی قیادت میں دہلی حکومت نے جو کچھ کیا، اس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ کیجریوال نے اپنی یومیہ COVID-19 بریفنگ میں تبلیغی جماعت سے متعلق معاملات کے الگ الگ اعداد و شمار دینے  لگے،جس نے نفرت کی اس آگ میں مسلمانوں کے خلاف پیٹرول کا کام کیا۔  دہلی حکومت نے میڈیا کے ذریعہ پہلے ہی سے پھیلائے جانے والے زہریلے بیانیے کو سرکاری وزن دیا۔  اس وقت، سول سوسائٹی اور قانونی برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں نے کیجریوال حکومت کے کردار پر سوال اٹھائے۔ ایک ایسی حکومت جو سیکولر اور عوام پر مرکوز ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، یا اس سے بھی بدتر، اس طرح کے ٹارگٹڈ الزام کی حوصلہ افزائی کیوں کرتی ہے؟ وبائی امراض کے دوران دوسرے اجتماعات یا خلاف ورزیوں پر بھی یہی معیار کیوں لاگو نہیں کیے گئے؟ جواب کبھی نہیں آئے، لیکن نقصان پہلے ہی ہو چکا تھا۔

اس واقعہ کا اثر صرف قانونی نہیں تھا، یہ گہرا سماجی اور جذباتی تھا۔   لوگوں نے اپنا وقار، اپنی روزی روٹی اور بعض صورتوں میں اپنی آزادی کھو دی ۔میڈیا اور حکومت کی ساز باز نے مسلمانوں کو ملک بھر میں بدنام کیا ان کے وقار کو مجروح کیا۔

آج بھلے ہی انصاف غالب آ گیا ہو لیکن اصل  سوال یہ ہے کہ  کیا ذلت، صدمے، جیل اور عوامی بدنامی کا سامنا کرنے والوں کو ریاست سے کوئی معاوضہ ملے گا؟ کیا تبلیغی جماعت پر الزام لگاتے ہوئے روزانہ پریس کانفرنس کرنے والے اروند کیجریوال کبھی معافی مانگیں گے؟فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے میں ان کی حکومت نے کیا کردار ادا کیا؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا نفرت انگیز مہم کی قیادت کرنے والا گودی میڈیا تبلیغی جماعت اور  مسلمانوں سے عوامی معافی کی ایک سطر بھی جاری کرے گا؟ کیا  تبلیغ جماعت کے عدالت سے باعزت بری ہونے پرپرائم ٹائم شو ہوگا؟ یا پھر اپنی سبکی پر شرمندہ ہونے کے بجائے پھر کسی اور پروپیگنڈے میں مصروف ہو جائے گا؟