تبدیلی مذہب کے جھوٹے معاملے میں عدالت نے یو پی  پولیس کے خلاف کارروائی  کادیا حکم

بریلی میں جبراً عیسائی بنانے کے معاملے میں جھوٹے طور پر پھنسانے کے معاملے میں دو افراد کو بری کیا ،ہندو جاگرن منچ  کی شکایت پر پولیس نے گرفتار کیا تھا

نئی دہلی ،24 اگست :۔

اتر پردیش کی یوگی حکومت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو تبدیلی مذہب کا الزام لگاکر خوب نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ہندوتو نوازوں کی ہنگامہ آرائی اور دباؤ میں آ کر پولیس بھی معاملہ درج کر کے گرفتار کر لیتی ہے۔اس سلسلے میں بریلی کی ضلعی عدالت نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے یو پی پولیس کو پھٹکار لگائی ہے ۔بغیر کسی تصدیق اور ثبوت کے محض دباؤ میں آ کر کارروائی کرنے اور گرفتار کرنے پر پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ ملزم بناتے ہوئے کاررائی کا حکم دیا ہے ۔

معاملہ ہے اتر پردیش کے بریلی ضلع کا جہاں  کی ایک عدالت نے حال ہی میں لوگوں کو زبردستی عیسائی بنانے کے معاملے میں دو افراد کو جھوٹے طور پر پھنسانے کے لیے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیاہے۔جسٹس گیانیندر ترپاٹھی نے ملزم کو بری کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ مہذب معاشرے کے لیے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی شخص کے خلاف مجرمانہ کارروائی کیسےشروع کر سکتا ہے۔عدالت نے پایا کہ پولیس نے شکایت کنندہ کے دباؤ میں کام کیا، جو صرف تشہیر چاہتا تھا۔

جج نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ پولیس نے مدعی جیسے لوگوں کی جانب سے تشہیر کی خواہش کے تحت کی گئی شکایات پر دباؤ ڈال کر کارروائی کی اور ایک بے بنیاد، من گھڑت اور فرضی کہانی کو قانونی اعتبار دلانے کی ناکام کوشش کی جس میں نہ صرف قیمتی وقت کا ضیاع ہوا۔ پولیس کی محنت اور پیسہ بلکہ عدالت کا بھی ضیاع ہوا۔عدالت نے کہا کہ اصل مجرم شکایت کنندہ، گواہ اور پولیس اہلکار ہیں جن میں اسٹیشن انچارج اور تفتیشی افسر کے ساتھ ساتھ چارج شیٹ کی منظوری دینے والا افسر بھی شامل ہے۔عدالت نے کہا کہ ان کی اجتماعی کوششوں سے دونوں ملزمان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

"سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، بریلی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شکایت کنندہ ہمانشو پٹیل کے ساتھ ساتھ اہم گواہوں اروند کمار، دیویندر سنگھ اور رویندر کمار کے ساتھ ساتھ سابق پولیس اسٹیشن انچارج، تفتیشی افسر اور ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کریں۔ چارج شیٹ کی منظوری دینے والے عدالتی افسر سے پوچھا گیا ہے۔”

واضح رہے کہ یہ   معاملہ 29 مئی 2022 کا ہے جب بریلی کے ساکت پور گاؤں کے رہنے والے اور ہندو جاگرن منچ کے ضلع صدر ہمانشو پٹیل نے گورکھپور کے رہنے والے اور روہیل کھنڈ میڈیکل کالج کے سابق ملازم ابھیشیک گپتا تبدیلی مذہب کے پروگرام کی قیادت کرنے کا الزام لگایا۔  دونوں افراد کو بری کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس کسی ایسے گواہ یا شخص کو پیش کرنے میں ناکام رہی جسے مبینہ طور پر ملزمان نے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا تھا۔عدالت نے کہا کہ ’’موجودہ کیس میں ملزم ابھیشیک گپتا کو نہ صرف ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ اسے معاشی اور سماجی نقصان بھی پہنچا۔ ملزم کندن لال کے بارے میں کسی گواہ نے یہ تک نہیں کہا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود تھا،   پھر بھی ملزم ابھیشیک گپتا کے مبینہ الزام پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔