تبدیلی مذہب معاملے میں مولانا کلیم صدیقی ،عمر گوتم سمیت  12  افراد کو عمر قید کی سزا

لکھنؤ میں این آئی اے اور اے ٹی ایس کی خصوصی عدالت نے سزا سنائی ،چار دیگر افراد کو دس سال کی سزا،دفاعی وکیل کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جانے کی تیاری

نئی دہلی،11 ستمبر :۔

جس بات کا خدشہ تھا وہی ہوا ،گزشتہ روز جب کورٹ نے مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم سمیت 16 افراد کو قصور وار قرار دیا تھا تو امکان تھا کہ خصوصی عدالت نے جس طریقے سے قصور وار قرار دیا ہے سزا بھی  ضرور سنائے گی۔ بدھ کے روز  لکھنؤ میں این آئی اے-انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کی  خصوصی عدالت نے معروف اسلامی مبلغ مولانا کلیم صدیقی اور اسلامک دعوہ سینٹر  کے بانی محمد عمر گوتم سمیت 12 افراد کو عمر قید  اور دس ہزار روپے جرمانے کی سزا کا اعلان  کیا جبکہ دیگر 4افراد کو دس دس سال کی سزا  اور پچاس پچاس ہزار جرمانے کی سزا سنائی  ۔ عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد دفاعی فریق کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ عدالت کے اس حکم کا باریکی سے جائزہ لیں گے اورمتبادل کا استعمال کرتے ہوئے اس حکم کو ہائی کورٹ ہی نہیں سپریم کورٹ تک لے جائیں گے اگر ضرورت پڑی۔

یہ فیصلہ خصوصی جج وویکانند شرن ترپاٹھی نے سنایا۔ عمر قید کی سزا کے علاوہ چار دیگر افراد کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔سزا سنائے جانے کے بعد مولانا کلیم صدیقی ،عمر گوتم سمیت دیگر سزا یافتگان کے وکیل  اسامہ ادریس نے میڈیا میں جاری بیان میں بتایا کہ اس فیصلے کے بعد ابھی ہمارے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ 264 پیج کا فیصلہ ہے، ابھی ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے،اس کے پڑھنے کے بعد ہائی کورٹ یا ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کا بھی رخ کریں گے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس  نے دعویٰ کیا کہ  سزا یافتہ افراد اتر پردیش میں سماعت سے محروم طلباء اور معاشی طور پر پسماندہ افراد کوغیر ملکی فنڈ کا استعمال کرتے  ہوئے لالچ اور مراعات دے کر اسلام قبول کراتے تھے۔

بٹلہ ہاؤس ، جامعہ نگر میں رہنے والے عمر گوتم جنہوں نے خود ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا ہے  ان کے سلسلے میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے شادی کرانے،پیسے ، ملازمت کی پیشکش کا لالچ دے کر  کم از کم 1000 لوگوں کو اسلام قبول  کرایا تھا۔یہ دعویٰ  ڈائریکٹر جنرل پولیس کے پرشانت کمار نے میڈیا  میں اس وقت کیا تھا جب  2021 میں عمر گوتم کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ  مولانا عمر گوتم، جن کا اصل نام شیام پرتاپ سنگھ تھا اور فتح پور کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے تھا۔ انہوں نے 1990 کی دہائی میں اسلام قبول کیا تھا۔ ان کی بیوی رضیہ کو پہلے راجیشوری کے نام سے جانا جاتا تھا انہوں نے بھی اسلام قبول کر کے مسلمام ہوئی تھیں۔ عمر  گوتم نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ گووند بلبھ پنت یونیورسٹی میں اپنے مسلمان دوست ناصر خان سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔

گوتم اور صدیقی کے ساتھ عمر قید کی سزا پانے والے دیگر افراد میں عرفان شیخ، صلاح الدین زین الدین شیخ، پرساد رامیشور کنورے عرف آدم، ارسلان مصطفی عرف بھوپریہ بندون، کوثر عالم، فراز شاہ، دھیرج گووند راؤ جگتاپ، سرفراز علی جعفری، قاضی جہانگیر ، عبداللہ عمر (مولانا گوتم کا بیٹا) شامل ہیں ۔ ان تمام   کو آئی پی سی کی دفعہ 121A کے تحت ریاست کے خلاف جرم کرنے کی سازش کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔

ان کے علاوہ چار  دیگر افراد محمد سلیم، راہول بھولا، منو یادو، اور کنال اشوک چودھری — کو یوپی میں تبدیلی مذہب کی ممانعت ایکٹ، 2021 کے تحت 10 سال قید اور پچا س ہزار روپے جرمانےکی سزا سنائی گئی۔

واضح رہے کہ مولانا کلیم صدیقی نے اپنے اوپر عائد الزامات کی ہمیشہ سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں آئین کے دائرے میں ہیں اور وہ صرف تبلیغ کا کام کر رہے تھے، جو کہ ہندوستان کے آئین کے تحت ہر شخص کا حق ہے۔ مولانا کے مطابق، انہوں نے کبھی کسی کو زبردستی یا لالچ دے کر مذہب تبدیل نہیں کرایا، بلکہ جو بھی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔
مولانا کے وکلاء نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تبدیلی مذہب ایک شخصی حق ہے اور اس کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ مولانا نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف الزامات سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر عائد کیے گئے ہیں تاکہ ان کی خدمات اور تبلیغی کاموں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
مولانا کلیم صدیقی اور ان کے رفقاء کو قصوروار قرار دیے جانے کے بعد ملک بھر میں مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ مولانا کے حامیوں اور متعدد اسلامی تنظیموں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور اسے ناانصافی قرار دیا ہے بلکہ اسے مذہبی تعصب پر مبنی فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا ہمیشہ قانون کا احترام کرتے رہے ہیں اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں مکمل طور پر قانونی ہیں۔