تاریخ کی کتابوں سے مغل اوردیگر ابواب کے ہٹائے جانے پر مورخین کا اظہار تشویش
معروف مورخین نے مشترکہ بیان جاری کیا، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش، مریدولا مکھرجی، عرفان حبیب اور اپندر سنگھ وغیرہ نے اقدام کو قابل تشویش قرار دیا
نئی دہلی:09اپریل :۔
تعلیمی نصاب میں داخل تاریخ کی کتابوں سے مغلوں اور دیگر اہم ابواب کو باہر کئے جانے سے جہاں ایک طرف ملک کا سنجیدہ طبقہ فکر مند ہے اور اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے تعلیم کے ’سیاسی کرن‘ سے تعبیر کر رہا ہے تو وہیں موجودہ عہد کے معروف مورخین نے بھی حکومت اور این سی آر ٹی کے اس اقدام پر گہرے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق مورخین کے ایک گروپ نےاین سی ای آر ٹی کےسی بی ایس ای طلباء کو پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں سے کچھ ابواب کو ہٹانے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ این سی ای آر ٹی کے ابواب کو ہٹانے کے فیصلے سے ’حیران‘ ہیں، خاص طور پر کلاس 12 کی کتاب سے۔ انہوں نے اس اقدام کو "گہری تشویش کا معاملہ” قرار دیا۔
جن مورخین نے بیان پر دستخط کیے ہیں ان میں دہلی یونیورسٹی کی مایا جان، جے این یو کے معروف مورخ آدتیہ مکھرجی، مورخ عرفان حبیب، نیویارک یونیورسٹی کے ڈیوڈ لاؤڈن، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش، مریدولا مکھرجی، اپوروانند اور اپیندر سنگھ وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی کتابوں سے گجرات فسادات، مغلوں، مہاتما گاندھی کے قتل سے متعلق ابواب کو ہٹا دیا گیا ہے۔ کلاس 6 سے 12 کے لیے سوشل سائنس، تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں سے ابواب ہٹا دیے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے 250 سے زائد مورخین نے تحریری بیان جاری کرکے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
مورخین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کورونا وبا کا بہانہ بنا کر نصاب کم کرنے کے نام پر تاریخ کے چند اہم ابواب کو ہٹا دیا گیا۔ مغلوں نے ہندوستان پر کئی صدیوں تک حکومت کی ہے اور تاریخ ان کا مطالعہ کیے بغیر نہیں سمجھی جاسکتی۔بیان میں کہا گیا ہے، "وبائی مرض کے دوران ہٹائے گئے ابواب این سی ای آر ٹی کی کتابوں کے نئے ایڈیشن میں بھی نہیں ہیں۔ جب کہ اسکولنگ معمول پر آ گئی ہے اور اب آن لائن موڈ میں نہیں ہے۔
تعلیم میں سیاست کو شامل کرنے کی مبینہ کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مورخین نے کہا ہے کہ "اس طرح تاریخ کے مطالعہ کو کم کر کے، چھدم تاریخ کے لیے زمین تیار کی جا رہی ہے، خاص طور پر فرقہ وارانہ اور ذات پات کے تنوع کے لیے۔ مورخ عرفان حبیب نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ خط سے کچھ نہیں ہوتا لیکن ہمیں بولنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ہمارے مستقبل سے جڑا معاملہ ہے۔ تاریخ داں ہو یا دانشور طبقہ، ان کو بولنا پڑتا ہے، چاہے وہ موثر ہو یا نہ ہو۔
دریں اثنا این سی ای آر ٹی نے تاریخی حقائق کو دبانے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ مرکز اور ریاستوں کو اسکولی تعلیم سے متعلق اعلیٰ مشاورتی ادارے نے کہا ہے کہ وبائی امراض سے متاثرہ طلباء کی مدد کرنا ایک پیشہ ورانہ مشق ہے اور اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے۔این سی آر ٹی گر چہ اپنی صفائی میں کچھ بہانے اور دلیلیں دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ملک کا سنجیدہ طبقہ اس پورے معاملے میں سیاست کو بنظر غائر دیکھ رہا ہے ۔چونکہ جن جن ابواب کو ہٹایا گیا ہے وہ تمام مضامین ملک کی موجودہ حکومت اور آر ایس ایس کو ہمیشہ سے ہی کھٹکتا رہا ہے ۔مہاتما گاندھی کے قتل سے متعلق باب ہو یا مغل بادشاہوں کے عہد کی زریں تاریخ ہو ،ان تمام مضامین پر ہمیشہ سے موجودہ حکومت کے نمائندے سوال اٹھاتے رہے ہیں۔