بےروزگاری کا عالم:24سالہ مایوس نوجوان ناگا سنیاسی بن گیا

گریجویٹ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت نہیں ملی،اگنیویر یوجنا پر بھی مایوسی کا اظہار کیا،سنیاسی کی زندگی کو بہتر قرار دیا

نئی دہلی،26 جنوری :۔

’خاندان میں تنازعہ چل رہا تھا، جس سے میں نے پیار کیا وہ نہیں  ملی،سرکاری ملازمت نہیں ملی، اگنیویر اسکیم فیل ہو گئی۔ زندگی میں بہت سے مسائل تھے،یہاں تک کہ اگر میں گھر میں رہتا تو 10 لوگوں کی جان ضرور لے لیتا۔ یہ سب  نہ کر کے خود  کو ہی مارنا   بہتر سمجھا اور ناگا سنیاسی کا راستہ اختیار  کرنے کا فیصلہ کیا ، اب واپسی کی تمام رہیں بند ہو چکی ہیں‘۔ یہ الفاظ  ہیں 24 سالہ شبھم مشرا کے،جنہوں نے حال ہی میں پریاگ راج میں جاری مہا کمبھ میں جونا اکھاڑہ کے تحت تقریباً 500 ناگاسنیاسیوں کے ساتھ دنیا وی زندگی ترک کر کےاب تا حیات  ناگاسنیاسی (رہبانیت )کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شبھم مشرا 24 سال کے نوجوان ہیں اور شاستر میں گریجویشن کیا ہے۔انہوں نے ناگا سنیاسی بننے کے پیچھے کی جو کہانی بیان کی ہے وہ آج کے ہمارے معاشرے ہی نہیں بلکہ حکومت اور انتظامیہ کو بھی آئینہ دکھا تی ہے۔آج کے تعلیم یافتہ اور ڈگری ہولڈر نوجوانوں کےمسائل،گھریلو مسائل سے لیکر روزگار اور ملازمت  کی تلاش میں مایوس نوجوانوں کی کہانی ہے۔شبھم کے ذریعہ گھر خاندان اور دنیا زندگی کو ترک کرنا اور ناگا سنیاسی بننا کتنا صحیح اور درست فیصلہ ہے اس سے قطع نظر ان کی کہانی نےموجودہ  حکومت کے ذریعہ روزگار اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے دعوؤں کی ہوا نکال دی ہے۔

اتر پردیش کے  پریاگ راج میں چل رہے مہا کمبھ میں جہاں ایک طرف  آئی آئی ٹی بامبے کے بابا سرخیاں بٹور رہے ہیں اور بالی ووڈ کی سابق ادا کارہ ممتا کلرنی کے ذریعہ سادھوی  بننے اور مہا منڈلیشور بن جانے کی کہانی وائرل ہو رہی ہے وہیں شبھم جیسے سماج اور حکومت سے مایوس نوجوان ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔شبھم کا کہنا ہے کہ وہ زندگی کی پریشانیوں سے مایوس ہو چکا ہے۔اتنی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت نہیں ملی،مجبور ہو کر پرائیویٹ نوکری کی لیکن اس میں  نا کامی ہی ہاتھ لگی۔زندگی اتنی مایوس ہو چکی تھی کہ اگر گھر پر رہتا تو ضرور دس لوگوں کی جان لے لیتا ۔ اس لئے یہ سب چھوڑ کر خود کو مارنا یعنی دنیا ترک کرنا ہی بہتر سمجھا۔شبھم کا کہنا ہے کہ ماں باپ،بھائی بہن اور رشتوں ناطوں کو چھوڑ کر ناگا سنیاسی کی زندگی کا الگ ہی مزہ ہے۔

شبھم نے مرکزی حکومت کی اگنیویر اسکیم کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ ملازمت کی جدو جہد کر رہے تھے اگنیویر یوجنا آئی ،وہ بھی فیل ہو گئی ۔ اس کے بعد پھرسرکاری ملازمت  حاصل کرنے کی تمام کوششیں  اور امیدیں بھی ختم ہو گئیں۔بہت پریشانیاں تھیں،بے روزگاری کے عالم میں پریشانیاں مزید بڑھتی گئیں ۔ہر طرف سے مایوس ہو کر میں نے ناگا سنیاسی کی زندگی اختیار کرنا بہتر سمجھا ، اب سب ٹھیک ہے۔یہاں سے واپسی کی تمام راہیں بند ہو چکی ہیں۔

واضح رہے کہ ہندو یا سناتن دھرم میں ناگا سنیاسی بننے کا مطلب ہوتا ہے دنیا وی رشتوں ناطوں سے قطع تعلق کر لینا ۔ دنیا و ما فیہا کو ترک کر کےرہبانیت کی زندگی گزارنا ۔ جس میں ایک شخص اپنا اور اپنے آباؤ اجداد کا ’پنڈ دان‘(جو رسم موت کے بعد ادا کی جاتی ہے) اسے زندگی میں ہی ادا کر دیتا ہے مطلب اس کے لئے سب مر چکے ہیں۔ اس کے بعد گنگا میں اسنان  کرایا جاتا ہے اور 108 قسمیں لی جاتی ہیں۔ ان حلفوں کے ذریعے ناگا سنت یہ حلف لیتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان اور دنیاوی زندگی کو مکمل طور پر ترک کر دیں گے اور سناتن دھرم کی حفاظت اور خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کر دیں گے۔

اس کےبر عکس اسلامی تعلیمات ہمیں مایوسی  اور نا امیدی  کی  تاریکیوں سے نکل کر امید کی روشنی میں ،دنیاوی مسائل سے لڑنے اور جدو جہد کی جانب رہنمائی کرتی ہیں۔جہاں مایوسی کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔رشتوں ،ناطوں کو ترک نہیں بلکہ نبھانے اور دنیا مسائل کو حکمت عملی سے سلجھانے کی تحریک دیتی ہیں۔اسلام نے بنی نوع انسانی کیلئے ایک معقول ،پاکیزہ اور معتدل زندگی کا خاکہ پیش کیا جو مادیت اور رہبانیت،مایوسی اور نا امیدی سے  پاک ہے۔جس میں نہ عیش و عشرت کے دل دادہ مسرتوں کو سراہا گیا اور نہ ہی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکرانے اور تارک الدنیا انسانوں ،دنیاوی رشتوں ناطوں کو ترک  کر کے تنہائی کی زندگی گزارنے والوں کی داد و تحسین کی گئی ہے۔