بی جے پی کارکنان عوام کی آواز سننے کے بجائے مودی کی مدح سرائی میں مصروف رہے
بھاگوت کے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں بھی بی جے پی کی سخت تنقید،آر ایس ایس سے رابطہ نہ کرنا بھی بتائی شکست کی وجہ
نئی دہلی ،12جون :۔
حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی مکمل اکثریت حاصل کرپانے میں نا کامی پر آر ایس ایس سخت برہم ہے اور اور مسلسل بی جے پی کی تنقید کر رہا ہے۔آر ایس ایس سر براہ موہن بھاگوت کے ذریعہ بی جے پی کے سینئر رہنماؤں کی بیان بازی پر سخت تنبیہ کے بعد اب راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کے ترجمان ’آرگنائزر‘ نے بھی لوک سبھا انتخابات میں شکست پر بی جے پی پر تنقید کی ہے۔ سنگھ نے لکھا ہے کہ ایسے نتائج بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں کی زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے آئے ہیں۔ آرگنائزر میں شائع مضمون میں رتن شاردا نے کہا ہے کہ عوام اور عام لوگوں کی آواز سننے کے بجائے بی جے پی کارکن وزیر اعظم نریندر مودی کی مدح سرائی کی چمک سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
آر ایس ایس ترجمان آر گنائر میں شائع مضمون کے آغاز میں رتن شاردا نے لکھا ہے کہ بھلے ہی مرکز میں تیسری بار مودی حکومت بنی ہے لیکن اس بار بی جے پی اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پارٹی کی کارکردگی انتہائی خراب اور مایوس کن رہی۔ سنگھ نے کہا کہ انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے زمینی حقیقت کو سمجھنے اور غور و خوض کرنے کا اشارہ ہیں۔
بی جے پی کے ذریعہ آر ایس ایس کو انتخابی تشہیر کے دوران در کنار کرنے پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ آر ایس ایس نے کہا ہے کہ بی جے پی لیڈر انتخابی حمایت کے لیے ‘سویم سیوکوں’ تک پہنچے ہی نہیں۔ بی جے پی نے ان کارکنوں پر کوئی توجہ نہیں دی جو نچلی سطح پر کام کر رہے تھے۔ سنگھ نے انتہائی تنقیدی انداز میں کہا کہ بی جے پی نے ان کارکنوں پر اعتماد کا اظہار کیا جو ‘سیلفیوں’ کی مدد سے مہم چلا رہے تھے۔ سنگھ کے رکن رتن شاردا مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ انتخابی نتائج بی جے پی کو آئینہ دکھانے والے ہیں۔
آر ایس ایس نے خاص طور پر مہاراشٹر اور یو پی میں توقع کے بر خلاف انتہائی مایوس کن کار کردگی پر تنقید کی ہے۔سنگھ نے مہاراشٹر کو لے کر سخت تبصرہ کیا ہے۔ رتن شاردا نے مضمون میں لکھا ہے کہ بی جے پی مہاراشٹر کی سیاست میں بہت زیادہ سرگرم ہو گئی اور وہاں غیر ضروری سیاست کی گئی۔ اجیت پوار دھڑے کی این سی پی کے مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے بی جے پی کارکنوں میں غصہ ہے، جسے پارٹی نے تسلیم نہیں کیا۔ رتن شاردا کا کہنا ہے کہ این سی پی کے ساتھ آنے کی وجہ سے مہاراشٹر میں بی جے پی کی برانڈ ویلیو میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اندھا دھند طور پر این سی پی اورکانگریس کے رہنماؤں کو بی جے پی میں شامل کرنے پر بھی آر ایس ایس نے تنقید کی رتن شاردا نے اگرچہ کسی لیڈر کا نام نہیں لیا لیکن لکھا کہ ایسے کئی سابق کانگریسی لیڈروں کو بی جے پی میں شامل کر لیا گیا، جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کا نعرہ لگایا تھا۔
رتن شاردا لکھتے ہیں کہ بی جے پی کارکنان اور پارٹی کے بہت سے لیڈر ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے کہ ’400 پار‘ کا نعرہ دے کر مودی نے کارکنوں اور لیڈروں کے لیے ایک ہدف مقرر کیا تھا اور اپوزیشن کو بڑا چیلنج دیا تھا۔ لیکن اہداف محنت سے حاصل ہوتے ہیں نہ کہ سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے۔ انہوں نے لکھا کہ ان انتخابی نتائج سے اور بھی بہت سے سبق ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ رتن شاردا نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ بی جے پی کارکن ‘آئے گا تو مودی ہی‘ اور ’اب کی بار 400 پار‘ کے نعروں میں الجھے رہے۔ پرانے اور سرشار کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا۔صرف مودی ہی 543 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں ،بی جے پی کی یہ حکمت عملی بھی شکست کی اہم وجہ رہی ،مقامی اور پرانے کارکنان کو نظر انداز کر کے نئے امیدواروں کو ٹکٹ دینا بھی نقصاندہ ثابت ہوا ۔