بی ایچ یوطالبہ کی عصمت دری : بی جے پی عہدیدار ملزمین کی گرفتاری میں تاخیر پر اٹھے سوال

  ملزمین کی گرفتاری میں 60 دن لگ گئے ،کب چلے گا ملزمین  کے گھر پر بلڈوزر ،سوشل میڈیا پر صارفین نے پوچھے سوال

وارانسی، نئی دہلی ،یکم جنوری :۔

تقریباً دو ماہ قبل بی ایچ یو کیمپس میں بندوق کی نوک پر آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی بی ٹیک کی طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری  کی گئی ۔ابتدا میں پولیس معاملہ کو غیر سنجیدہ طریقے سے ہینڈل کرنے کی کوشش کی لیکن جیسے معاملہ طلبہ کے درمیان پہنچا انہوں نے احتجاج شروع کر دیا ۔طلبہ کے احتجاج کے باوجود خواتین کے حقوق کی دہانی دینے والی بی جے پی حکومت غفلت برتتی رہی یا ڈھیل دیتی رہی اور دو ماہ بعد بالآخر   تینوں ملزمین کنال پانڈے، سکشم پٹیل اور آنند عرف ابھیشیک چوہان کو گرفتار کیا گیا ۔چونکہ تینوں ملزمین کاتعلق بی جے پی سے ہے اور وہ بی جے پی آئی ٹی سیل کے عہدیدار ہیں ۔اس لئے پولیس کی غفلت اور سستی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ کانگریس نے بھی ان کی گرفتاری میں تاخیر پر سوال اٹھائے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دو ملزمان کنال پانڈے اور سکشم پٹیل کے بی جے پی آئی ٹی سیل سے جڑے ہونے کے مضبوط ثبوت بھی ٹوئٹر سمیت تمام سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ تینوں ملزمین وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ یوگی سمیت دیگر سینئر بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ تصاویر بھی ہیں۔ 20 اگست 2021 کا ایک خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جسے خود کنال پانڈے نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔ یہ بی جے پی وارانسی کے لیٹر ہیڈ پر آئی ٹی سیل کے کارکنوں کی فہرست ہے۔ اس میں کنال پانڈے کو میٹروپولیٹن وارانسی آئی ٹی سیل کا کوآرڈینیٹر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیٹر ہیڈ پر انہوں نے خود دستخط کیے ہیں۔ جبکہ سکشم پٹیل کا نام بطور کوآرڈینیٹر درج کیا گیا ہے۔

ملزمین کی گرفتاری میں ہوئی تاخیر پر اب سوشل میڈیا پر سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں ۔بتایا جا رہا ہے کہ   پہلے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی، جب دباؤ بنایا گیا تو کسی طرح یوپی پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ اب 60 دن بعد اس واقعے میں ملوث 3 افراد کو پکڑا گیا ہے۔ یہ سبھی بی جے پی کے عہدیدار ہیں۔ گرفتاری میں تاخیر شاید اسی وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ تینوں بی جے پی کے سر گرم عہدیدار ہیں ۔

سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اجتماعی عصمت دری کی متاثرہ نے پانچویں دن ہی سی سی ٹی وی فوٹج میں ان کی شناخت کر دی تھی لیکن پھر بھی پولیس سوتی رہی ۔اس دوران ملزمین مدھیہ پردیش میں ہو رہے الیکشن میں بی جے پی کی تشہیر کرتے ہوئے اور وزیر اعظم کی گارنٹی کا پرچار کرتے رہے۔لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ لگا تار انکاؤنٹر کرنے والی یوگی پولیس کس کے دباؤ میں ان ملزمین کے خلاف کارروائی کرنے سے بچتی رہی اور گرفتاری میں دو ماہ لگ گئے ۔لوگ پوچھ رہے ہیں کہ  ملزمین کے گھر پر بلڈوزر کب چلے گا؟

رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تھا، جس کے بعد 8 نومبر کی رات وارانسی پولیس نے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں اجتماعی عصمت دری اور یرغمال بنانے کی دفعہ شامل کی تھی۔ واقعے کی اگلی صبح یعنی 2 نومبر کو اس درندگی کی خبر بی ایچ یو کے طلبہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ہزاروں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور کیمپس میں احتجاجی دھرنا دیا۔ بعد ازاں پولیس کی جانب سے کارروائی کی یقین دہانی پر طلبہ نے احتجاج ختم کر دیا۔