بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کا جہاں سے آغاز ہوا وہیں جنسی تناسب کی شرح تشویشناک

نئی دہلی ،23 جنوری :۔

ہریانہ ریاست میں جنسی تناسب ہمیشہ عدم توازن کا شکار رہا ہے ۔متعدد  واقعات اور کہانیاں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں جہاں لڑکوں کو شادی کیلئے لڑکیاں نہیں ملتیں  اور لمبی عمر تک لڑکے شادی کے انتظار میں گزار دیتے ہیں ۔ہریانہ  کی تاریخی سر زمین پانی پت سے گزشتہ دس سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے  2015 میں  ‘بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ’ مہم کی شروعات کی تھی۔آج  اس مہم  کو دس سال مکمل ہو چکے ہیں ۔لیکن پھر بھی ہریانہ کے اس تاریخی سر زمین میں جنسی تناسب اب بھی تشویشناک ہے۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کے دس سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں مرکزی حکومت جشن منا رہی ہے اور تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے لیکن زمینی سطح پر یہ مہم کتنی موثر ثابت ہوئی یہ پانی پت اضلاع میں جنسی تناسب پر مبنی رپورٹ سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دراصل محکمہ صحت نے پانی پت ضلع کے 190 گاؤں میں سے 67 گاؤں کو پیدائش کے وقت جنسی تناسب کے عدم توازن کی وجہ سے ریڈ زون میں رکھا ہے۔ جو ضلع جنسی تناسب سدھار کے معاملے میں سب سے آگے تھا وہ اب 900 کے جنسی تناسب پیدائش کے ساتھ 17ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ محکمہ صحت نے بتایا کہ پیدئش کے وقت جنسی تناسب کی شرح (SRB) کے معاملے میں پانی پت کے گاؤں کی حالت قابل رحم ہے، اور اس کی جانچ کی جائے گی۔

محکمہ صحت نے ایسے خاص گاؤں کی پہچان کی ہے جہاں جنسی تناسب کی شرح 850 سے بھی کم ہو گئی ہے۔ ان میں سے کچھ گاؤں کی بات کریں تو منڈی میں ایس آر بی 478 سے بھی کم ہے۔ وہیں باپولی کے آٹھ گاؤں، چُلکانا اور پٹی کلیانا کے سات گاؤں بھی جانچ کے دائرے میں ہیں۔ محکمہ صحت ان گاؤں کے اعداد وشمار کا تجزیہ کر رہی ہے تاکہ اس کی وجوہات کو سمجھا جا سکے۔یہ تمام گاؤؤں پانی پت کی اسی سزمین سے تعلق رکھتی ہیں جہاں سے دس سال قبل اس مہم کی شروعات کی گئی تھی۔

محکمہ صحت نےاس سلسلے میں سبھی صحت اہلکاروں کو حاملہ خواتین کی نگرانی کرنے اور پہلی سہ ماہی سے ہی تفصیلی ریکارڈ بنائے رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کسی بھی الٹراساؤنڈ سے پہلے یہ اعداد و شمار صحت محکمہ کے پورٹل پر اَپلوڈ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔