بین مذاہب شادی کرنے والوں کو سپریم کورٹ کی راحت
جیل بھیجے گئے ہندو لڑکی سے شادی کرنے والے مسلم نوجوان کو عدالت عظمٰی نے ضمانت دی

نئی دہلی ،16 جولائی :۔
سپریم کورٹ نے ایک مسلمان لڑکے کی ضمانت منظور کر لی ہے جسے اتراکھنڈ کی ایک ہندو لڑکی سے شادی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ مسلم لڑکے کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے نے اہم تبصرہ کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ دو بالغ افراد کی باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنے پر اس بنیاد پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مسلم نوجوان کو ضمانت دے دی، جو تقریباً چھ ماہ سے جیل میں تھا۔ جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے ملزم کی طرف سے دائر اپیل پر یہ اہم فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ گزشتہ 11 جولائی کو سپریم کورٹ نے ضمانت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کی ۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
اپنے حکم میں، سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ریاست کو اپیل کنندہ (مسلم نوجوان) اور اس کی بیوی کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب ان کی شادی ان کے والدین اور خاندان کے افراد کی مرضی کے مطابق ہوئی ہو۔” بنچ نے مزید کہا کہ اس معاملے میں مزید قانونی کارروائی ان کے ساتھ رہنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ عدالت نے ملزم کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیا کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں ہے اور اس کیس میں چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔
عدالت کا حکم ایک مثال
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کے مختلف حصوں میں بین المذاہب شادیوں کو لے کر اکثر تنازعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں، خاص طور پر جب ایک فریق مسلم کمیونٹی سے ہو۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم دو بالغ افراد کے متفقہ رشتہ اور مذہبی آزادی کے حق کو تقویت دیتا ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی جانب سے دیے گئے حکم کے بعد توقع ہے کہ دھامی حکومت اس طرح کی یکطرفہ کارروائی سے گریز کرے گی۔