بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے محمد زبیر کے خلاف درج فوجداری مقدمات کی مذمت کی
نئی دہلی،12 دسمبر :۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز سمیت انسانی حقوق کی گیارہ بین الاقوامی تنظیموں نے آلٹ نیوز کے شریک بانی، صحافی اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف لگائے گئے غداری کے الزامات کی مذمت کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، یای نرسمہانند سرسوتی ٹرسٹ کی جنرل سکریٹری، ادیتا تیاگی کی شکایت پر، غازی آباد پولیس نے ان کے خلاف انڈین جسٹس کوڈ (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ جرم کے زمرے میں زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔
اس خط پر انسانی حقوق کی 11 سرکردہ تنظیموں نے دستخط کیے ہیں، جن میں انڈیکس آن سنسر شپ، پی ای این انٹرنیشنل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)، انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی)، الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) شامل ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور آئی ایف ای ایکس شامل ہیں۔
ایک سابقہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ جون 2022 میں زبیر کو دہلی اور اتر پردیش پولیس نے 2018 میں کیے گئے ایک طنزیہ ٹویٹ کے لیے گرفتار کیا تھا۔ زبیر پر ‘مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی پھیلانے اور جان بوجھ کر لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کا الزام تھا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک کیس میں جیسے ہی اس شخص کی ضمانت ہوتی ہے، اس کے خلاف نئی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ زبیر کے خلاف کل چھ مقدمات درج ہیں جس کی وجہ سے وہ گرفتاری، ضمانت اور دوبارہ گرفتاری کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے زبیر کے خلاف درج کی گئی تازہ ترین ایف آئی آر کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں حکومت نے ایسے افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جو انسانی حقوق خاص طور پر اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو عوامی طور پر اجاگر کرنے والے ہیں ۔ محمد زبیر کو اس لئے نشانہ بنایا جا رہا ہےکہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوتو نوازوں کی کارستانیوں کو عوامی پلیٹ فارم پر دنیا کے سامنے لاتے ہیں اور شدت پسندوں کے جھوٹ اور فریب کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں اسی طرح انسانی حقوق کے ایک سر گرم کارکن اے پی سی آر کے قومی سکریٹری محمد ندیم خان کو بھی حکومت کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ بھی اقلیتوں کے مسائل اٹھاتے ہیں اور عدالتوں میں مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ان دونوں شخصیات کو اتنظامیہ کے ذریعہ ہدف بنائے جانے کی سول سوسائٹی کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔