بہرائچ کے فسادات اور کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پرآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا سخت ردعمل
ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق، نفرت اور تشدد کی سیاست ناقابل قبول: فیروز احمد ایڈوکیٹ
نئی دہلی،17اکتوبر :
بہرائچ کے مہسی اور دوسرے مقامات پر پولیس کی پشت پناہی میں اتوار سے جاری فسادات پر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی سیاست سے ملک کے سماجی تانے بانے کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مشاورت کے صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ نے اترپردیش کی یوگی حکومت کو اس کے لیے براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے، وزیر اعلی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یوپی پولیس بلوائیوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تصویروں اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اقلیتی آبادی پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں کبھی پولیس آگے آگے اور دنگائی پیچھے پیچھے چل رہے ہیں جبکہ کبھی دنگائی پیچھے پیچھے اور پولیس آگے آگے چل رہی ہے۔
صدر مشاورت نے کہا کہ بہرائچ میں تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں وہ اتفاقی نہیں، منصوبہ بندکارروائیاں ہیں، پہلے فساد کرایا گیا اور اب بے گناہوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ فیروز احمد نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو بھی انتہائی افسوسناک بتایا ہے جس میں اشتعال انگیزی کے ان ملزمین پر درج کردہ مقدمہ کو منسوخ کردیا گیا ہے جنھوں نے ایک مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگایا اور علاقے کی سماجی ہم آہنگی اور امن و قانون کو تباہ کرنے کی سازش کی تھی۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ ریمارکس زیادہ قابل افسوس ہے کہ مسجد کے اندر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ پولیس اور ججوں کے اسی رویے سے شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
درگا پوجا کے جلوس کے دوران ایک مسلمان کے گھر پر چڑھ کر اس پر موجود سبز مذہبی پرچم کو ہٹانا، بھگوا پرچم لہرانا اور جلوس کے ساتھ ڈی جے پر اشتعال انگیز گانا چلانا علاقہ میں فساد پھوٹ پڑنے کا سبب بنا کیونکہ پولیس نے شر پسندوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔یوپی کی حکومت و انتظامیہ فساد پر قابو پانے میں ہنوزناکام ہے، لگاتار دوسرے تیسرے دن بھی اقلیتی علاقوں پر حملے ہوئے، جمعرات کو ایک فرضی انکاؤنٹر میں پولیس نے مسلم نوجوانوں کو شدید زخمی کردیا اور اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یک طرفہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
صدر مشاورت نے کہا کہ مقامی باشندے پولیس اور انتظامیہ کی بے حسی کی تنقید کر رہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ بلوائیوں کا گروپ جب گاؤں میں توڑ پھوڑ، آتشزنی اور لوٹ مار کرکے چلا جاتا ہے تب پولیس آتی ہے اور وہ الٹے مظلوموں کو نشانہ بناتی ہے۔ضلع میں انٹر نیٹ خدمات بند ہیں۔ پولیس نے حالات قابو میں آجانے کا دعویٰ کیاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بلوائیوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور پولیس بھی مظلوموں پر ہی ظلم ڈھارہی ہے۔ پورے متاثرہ علاقہ میں پولیس فورس تعینات ہے۔ایس ٹی ایف کے کمانڈو دستے اور سی آر پی ایف کے جوانوں نے مورچہ سنبھال لیا ہے لیکن صورت حال بدستور سخت کشیدہ اور دھماکہ خیز بنی ہوئی ہے۔ مشاورت کا ماننا ہے کہ صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس میں مداخلت کریں اور معاملے کی اعلی سطحی جانچ کرائی جائے تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔