بہرائچ فرقہ وارانہ تشدد: گمراہ کن بیان بازی پر تنقید کے بعد نوپو رشرما نے معافی مانگی

 اپنے دفاع میں کہا 'جو میڈیا میں سنا وہی دہرایا تھا'،فیک نیوز پھیلانے والی میڈیا کب معافی مانگے گی

نئی دہلی ،21 اکتوبر :۔

توہین رسالت کے ارتکاب کے بعد بحث میں رہی بی جے پی خاتون رہنما ایک بار پھر اپنی غلط بیانی اور گمراہ کن بیان بازی کیلئے سرخیوں میں ہے۔ بہرائچ تشدد میں مارے گئے رام گوپال مشرا کی موت کو لے کر  ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے غلط بیانی کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ رام گوپال کو انتہائی بربریت سے مارا گیا تھا۔ اسے 35 گولیاں ماری گئی تھیں اور ناخون تک اکھاڑ دیے گئے۔ اس گمراہ کن اور غلط بیانی پر ان کی جم کر تنقید ہوئی جس کے بعد حالات کو دیکھتے ہوئے معافی معانگ لی اور   اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے جو میڈیا میں سنا اور دیکھا وہی دہرایا تھا۔

نوپور شرما کے ذریعہ غلط بیانی پر معافی مانگے جانے کے بعد اب سوال کیا جا رہا ہے کہ اس فیک اور گمراہ کن خبر کو نشر کرنے والے میڈیا کے اہلکار بھی معافی مانگیں گے ؟ یا ان کے خلاف انتظامیہ کوئی کارروائی کرے گی ۔ انہوں نے اپنی اس گمراہ کن خبر کے ذریعہ جب ایک رہنما کو گمراہ کر دیا تو عام کتنے لوگوں کو گمراہ کیا ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق نوپور شرما نے بلند شہر میں منعقد برہمن سبھا کو خطاب کرتے ہوئے بہرائچ تشدد کا ذکر کرتے یوئے متنازع باتیں کہی تھیں۔ انہوں نے اس معاملے پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی کارروائی کی بھی حمایت کی تھی۔ حالانکہ معاملے کو طول پکڑتا دیکھ کر انہوں نے اپنے بیان پر پلٹی مارتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ نوپور شرما نے ‘ایکس’ پر لکھا ”  رام گوپال مشرا   کے بارے میں جو میں نے میڈیا میں سنا تھا وہ دہرا دیا، مجھے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی وضاحت کے بارے میں علم نہیں تھا۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں اور معافی مانگتی ہوں۔  حیران کن بات یہ ہے کہ نپور شرما نے یہ گمراہ کن بات جب کہی تو اس وقت اسٹیج پر ہماچل پردیش کے گورنر شیو پرتاپ شکل اور راجستھان کے سابق گورنر کلراج مشرا بھی موجود تھے۔

قابل زکر ہے کہ بہرائچ تشدد کے بعد رام گوپال مشرا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو لے کر سوشل میڈیا پر اس طرح کے دعوے کیے گئے تھے کہ اسے مارنے سے پہلے بہت اذیت دی گئی تھی۔ حالانکہ بہرائچ پولیس نے انہیں غلط بتاتے ہوئے اس کی تردید کرتے ہوئے افواہ نہیں پھیلانے کی اپیل کی تھی۔ پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔