بہرائچ ’بلڈوزر کارروائی‘ پر یوگی حکومت سے جواب طلب

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ  پوچھا- ’انہدامی کارروائی سے پہلے سروے ہوا یا نہیں؟

نئی دہلی ،07 نومبر :۔

اتر پردیش کی حکومت کو ان دنوں کورٹ کی جانب سے سخت ہزیمت کا سامنا ہے۔گزشتہ کل بدھ کو سپریم کورٹ نےمہاراج گنج میں ایک انہدامی کارروائی پر پھٹکار لگائی اور متاثرہ کو 25 لاکھ روپے معاوضہ کی ہدایت دی ۔وہیں آج پھر الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بہرائچ میں مبینہ تجاوزات کے خلاف انہدامی کارروائی کو چیلنج دینے والی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران یوگی حکومت سے سوال کیا ہے کہ قانون کے مطابق سروے اور حد بندی کی گئی تھی یا نہیں۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے دیگر نکات پر بھی معلومات مانگتے ہوئے معاملے میں اگلی سماعت کے لیے 11 نومبر کی تاریخ طے کی ہے۔

اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت کی طرف سے جوابی حلف نامہ داخل ہو چکا ہے۔ اس پر عدالت نے درخواست گزار کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم جسٹس اے آر مسعودی اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی بنچ نے ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی طرف سے داخل مفاد عامہ کی عرضی پر پاس کیا۔

عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل وی کے شاہی کو یہ بھی بتانے کے لیے کہا ہے کہ کیا اس بات کی جانچ کرائی گئی تھی کہ جن لوگوں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے وہ املاک کے اصلی مالک ہیں یا نہیں؟ درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی ہے کہ جن افسروں نے نوٹس جاری کی ہے وہ متعلقہ التزامات کے تحت نوٹس جاری ہی نہیں کر سکتے۔ نوٹس جاری کرنے کا حق صرف ضلع مجسٹریٹ کو ہے۔

اس پر عدالت نے اگلی سماعت پر یہ بھی بتانے کو کہا ہے کہ کیا نوٹس صحیح افسروں کے ذریعہ جاری کی گئی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے بھی کہا ہے کہ وہ جن لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان کی تفصیل اگلی سماعت میں پیش کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایک ہندو مذہبی جلوس کے دوران زبر دست فرقہ وارانہ فساد فوٹ پڑا تھا جس میں گوپال مشرا نامی ایک ہندو نوجوان کی موت ہو گئی تھی جس کے بعد درجنوں مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔اس اندوہناک واقعہ کے بعد یوگی حکومت نے سڑک کی توسیع کے نام پر مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں پر انہدامی کارروائی کا نوٹس چسپاں کر دیا تھا جس کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کی گئی ہے۔