بہرائچ:پولیس کی بھاری نفری کے باوجود تشدد بے قابو،آتشزنی اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری

دیر رات ایک مسجد اور مزار پر حملہ ، توڑ پھوڑ اور آگزنی کی کوشش،مسلمانوں میں خوف و ہراس،جان بچانے کیلئے گھر

نئی دہلی،15 اکتوبر :

اتر پردیش  میں بہرائچ میں  درگا مورتی وسرجن کے جلوس کے دوران شروع ہونے والا تشدد تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پیر کے روز شرپسندوں نے دکانوں، اسپتالوں اور شو رومز سمیت مسلمانوں کے کئی گھروں کو آگ لگا دی جس کے بعد انتظامیہ نے علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی ہے۔ اس کے باوجود شرپسندوں نے رات دیر گئے نکوا گاؤں میں  ایک مسجد اور مزار  پر حملہ کیا گیا،توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگانے کی بھی کوشش کی۔ تاہم پولیس کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر صورتحال پر قابو پالیا۔ تشدد اور کشیدہ صورتحال کےدوران مختلف مقامات پر پولیس فورس کو تعینات دیکھا گیا۔ اس کے بعد بھی شرپسندوں نے پیر کی رات تقریباً 10 بجے ایک گاؤں میں آگ لگا دی۔ ناکوا گاؤں کے سربراہ نے بتایا کہ 10 سے 15 لوگ آئے اور آگ لگا دی۔ آتشزدگی کے بعد پولیس اور پی اے سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور حالات کو قابو میں کیا۔ پولیس کو دیکھتے ہی  شر پسند فسادی فرار ہو گئے۔شر پسند فسادیوں کا ہجوم مسلمانوں کی بستیوں پر حملہ کر رہا ہے اور غریب مسلمانوں کے گھروں اور مکانوں  میں آگ لگا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنی جان بچانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق مہسی بی ڈی او ہیمنت یادو نے کہا کہ کچھ شرپسند  عناصر نے گاؤں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر صورتحال پر قابو پالیا۔ انہوں نے بتایا کہ 50 سے زائد پولیس اہلکار موقع پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مذہبی مقام کو گرانے کی بھی کوشش کی گئی۔ شرپسندوں نے ایک مزار کو بھی گرانے کی کوشش کی ہے۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ مزارکو گرانے کے بعد اسے آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم پولیس نے حالات کو قابو میں کر لیا ہے۔

واضح ہو  اتوار کی شام تقریباً 6 بجے درگا مورتی کے وسرجن کے دوران دو فرقوں  میں آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ اس دوران پتھر بازی اور فائرنگ میں رام گوپال مشرا (22) نامی نوجوان کی موت ہوگئی اور درجنوں لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ خبر پھیلتے ہی پورے علاقے میں افراتفری مچ گئی۔ دوسرے فرقہ کے ہزاروں لوگ لاٹھیاں لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ اور نعرے بازی شروع کردی۔ پولیس نے چارج سنبھال لیا لیکن حالات قابو سے باہر ہو گئے۔