بہار میں ووٹر لسٹ کی نظر ثانی در اصل بیک ڈور سے این آر سی نافذ کرنے کی سازش کا حصہ ہے
جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نےبہار میں الیکشن کمیشن کی کرگردی پر سوال کھڑے کئے ،اس کے علاوہ ملک میں بڑھتےحادثات کے تناظر میں عوامی تحفظ کی پالیسیز میں فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،05 جولائی :۔
بہار میں آئندہ نومبر میں انتخابات ہونے والے ہیں اس سے قبل مرکزی حکومت کے ذریعہ بہار میں ووٹر لسٹوں کی نظر ثانی کا عمل جنگی پیمانے پر جاری ہے ۔الیکشن کمیشن کی اس کاردگی پرجہاں اپوزیشن کی جانب سے سوال کھڑے کئے جا رہے ہیں وہیں دیگر رفاہی اور ملی تنظیموں نے بھی سوال اٹھایا ہے اور الیکشن کمیشن کے اس عمل کو مشکوک قرار دیا ہے۔جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں آج نائب امیر جماعت پروفیسر سلیم انجینئر نے جہاں ملک میں دیگر امور اور مسائل پر گفتگو کی وہیں انہوں نے بہار میں مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری ووٹر لسٹوں کی نظر ثانی کے عمل پر بھی سوال اٹھایا ہے۔پروفیسر سلیم انجینئر نے بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ انتخابی فہرستوں سے ’ناقص‘ ووٹروں کے ناموں کو حذف کرکے انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کی کوشش کر رہی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ مرکزی حکومت الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو "سیاسی طور پر ووٹروں کی فہرستوں کو صاف کرنے کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہی ہے”، اس طرح لاکھوں لوگوں کے ووٹ دینے کے آئینی حق کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
پروفیسر سلیم نے کہا، "یہ صرف ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کا معمول نہیں ہے۔”یہ بڑی تعداد میں جائز ووٹروں کو خارج کرنے کی ایک منصوبہ بند، منظم کوشش ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو غریب، پسماندہ، اور حکمران جماعت کے لیے سیاسی طور پر تکلیف دہ ہیں۔
جے آئی ایچ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا پر تعصب اور جانبداری کا الزام بھی لگایا ہے، اور یہ تجویز کیا ہے کہ وہ حکومتی دباؤ میں کام کر رہا ہے۔پروفیسر سلیم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن حکومت کے ایجنڈے کے مطابق کام کر رہا ہے۔ "وہ لوگ جو حکمران جماعت کے ساتھ منسلک ہیں، چاہے ان کے کاغذات نامکمل ہوں، انہیں کلیئر کیا جا رہا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو حکومت کے لیے تنقیدی یا تکلیف دہ سمجھا جاتا ہے، انہیں مشکوک ووٹر قرار دے کر ڈراپ کیا جا رہا ہے ۔
دریں اثنا جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے حالیہ دنوں تلنگانہ میں ہونے والے فیکٹری کے ہولناک دھماکے ، پوری میں رتھ یاترا کے دوران افسوسناک بھگدڑ اور احمدآباد میں المناک فضائی حادثے پر اپنے گہرے رنج و غم اور تشویش کا اظہار کیاہے ۔
ماہانہ پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران احمد آباد، پوری اور تلنگانہ میں تین بڑے حادثات پیش آئے ہیں۔ یہ حادثات ایک بڑے قومی خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں اور عوامی تحفظ سے متعلق بنیادی خامیوں پر فوری غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم ریاستی اور مرکزی حکومت کی جانب سے فوری اقدام جیسا کہ معاوضے اور انکوائریوں کے اعلان کو سراہتے ہیں لیکن یہ اقدامات ان انتظامی اور ادارہ جاتی سنگین خامیوں کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں جو ایسے سانحات کے بار بار وقوع پذیر ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
پروفیسر انجیئر سلیم نے کہا کہ 30 جون 2025 کو تلنگانہ میں سگاچی انڈسٹریز کی دوا ساز فیکٹری میں ہونے والے دھماکے میں 40 مزدور جاں بحق ہوئے جبکہ کئی شدید طور سے زخمی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں پرانی مشینری، تکنیکی کمزوریاں اور حفاظتی انتظامات کی سنگین کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔ صرف ایک دن قبل پوری کے گنڈیچا مندر کے قریب بھگدڑ میں تین شردھالو جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے ۔یہ المناک حادثہ بڑے مذہبی اجتماعات کے دوران اکھٹا ہونے والی بھیڑ کے موثر انتظامات کی اشد ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح احمد آباد کا درد ناک فضائی حادثہ شہری ہوا بازی کے شعبے میں نگرانی اور ہنگامی تیاری کے نظام کی خامیاں اجاگر کرتا ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک میں صنعتی آتشزدگیاں، شہری ڈھانچے کا انہدام اور عوامی اجتماعات میں بھگدڑ جیسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حادثوں سے کام کرنے کے مقامات، تہواروں اور روزمرہ زندگی میں تحفظ کے بارے میں گہری تشویش پیدا ہوئی ہے۔ ان حادثات کے پیش نظر جماعت اسلامی ہند قومی مفاد میں درج ذیل تجاویز پیش کرتی ہے۔
عوامی تحفظ سے متعلق قوانین، پالیسیوں اور ہنگامی ضوابط کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔
ملک گیر سطح پر ایک متحد اور قابلِ نفاذ سیفٹی کوڈ وضع کیا جائے جسے تمام صنعتوں، تقریبات اور عوامی ڈھانچوں پر لاگو کیا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ احتساب کا واضح نظام بھی عمل میں لایا جائے۔بڑے مذہبی ، ثقافتی اور شہری ٹرانزٹ کے مواقع پر ہجوم کو قابو کرنے اور شہری ہوا بازی کے ضوابط کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔مقامی اور قومی سطح پربڑے عوامی اجتماعات کی نگرانی، ابتدائی انتباہی نظام اور آفات سے بچاؤ کے یونٹ مضبوط اور وسائل سے لیس کیے جائیں۔ حفاظتی منصوبہ بندی اور آڈٹ کے عمل میں مزدوروں کی نمائندگی اور کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے ۔ضوابط بنانے والے اداروں اور حفاظتی انسپکٹروں کو انتظامی اور سیاسی دباؤ سے آزاد اور موثر کارروائی کے لیے بااختیار بنایا جائے۔سیاسی قیادت اور متعلقہ حکام کو اخلاقی اور انتظامی سطح پر مکمل جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
اسرائیلی جنگی جرائم کے تسلسل اور ایران پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ غزہ میں جاری نسل کشی، اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور اس کی غیر انسانی نسلی امتیاز پر مبنی پالیسیوں نے انسانیت اور اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کر لیا ہے۔ روٹی کے انتظار میں کھڑے بھوکے شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنانا تاریخ کے بدترین مظالم میں شمار کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اسرائیل کے حالیہ حملے ایران کے خلاف نسل کشی کے اس وسیع منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ حملے ایک خودمختار ملک کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی پامالی ہیں۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سیاسی منافقت کو ترک کرتے ہوئے نسل کشی کی حقیقت کو تسلیم کرے۔ اور اس نسل کشی کا موثر جواب دے۔ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
اس موقع پر منی پور میں دوبارہ شروع ہونے والے تشدد پر جماعت اسلامی ہند کے قومی سیکریٹری مولانا شفی مدنی نے اپنی گہری تشویش اور رنج کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا امپھال میں حالیہ پرتشدد کارروائیاں، جن میں آگ زنی، توڑ پھوڑ، اور سیکیورٹی فورسز پر حملے شامل ہیں، اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مسلح انتہا پسند گروہوں کا وادی میں کتنا خطرناک اثر و رسوخ قائم ہو چکا ہے۔ ان گروہوں کو حاصل سیاسی سرپرستی اور بلا امتیاز ان کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں متاثرہ خاندان اب بھی بے گھر، خوفزدہ اور ذہنی طور پر صدمے کا شکار ہیں۔اس بحران کی وجہ سے منی پور کے بچوں کی تعلیم، روزگار اور بنیادی خدمات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے اس دیرینہ مطالبے کو دہرایا کہ تمام غیر قانونی عناصر کو غیر مسلح کیا جائے، نفرت پر مبنی نیٹ ورکس کو ختم کیا جائے اور بے گھر افراد کی مکمل باز آبادکاری کی جائے۔ مولانا شفیع مدنی نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ قیادت کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو اس انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری، مضبوط اور نتیجہ خیز اقدام کرنا چاہیے۔