بہار :شدت پسندہجوم کا مذہبی جلوس کے دوران مسجد پر حملہ ، توڑ پھوڑ ،پولیس نے بھی لگائے نعرے

بہار کے  گوپال گنج واقعہ پیش آیا، مذہبی جلوس کے ساتھ شامل  پولیس افسران نے بھی مبینہ طور پر جے شری رام کے نعرے لگائے

نئی دہلی ،03 اکتوبر :۔

ہندو تہواروں کے موقع پر نکلنے والے مذہبی جلوس اور تشدد اور فرقہ وارانہ تصادم کا سبب بنتے جا رہے ہیں ،اس طرح کے جلوس میں شامل ہندو ہجوم مساجد کے سامنے ہنگامہ کرتا ہے ،اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کرتا ہے جس کی وجہ سے ماحول خراب ہوتا ہے ۔تازہ معاملہ بہار  کے گوپال گنج  کا ہے جہاں  ایک مذہبی جلوس نے پرتشدد اور فرقہ وارانہ رخ اختیار کر لیا۔رپورٹ کے مطابق  یکم اکتوبر کی شام مہاویر اکھاڑہ کے جلوس کے دوران ایک مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ واقعہ ہتھوا پولیس اسٹیشن کے دائرہ اختیار میں پیش آیا۔

دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پولیس سپرنٹنڈنٹ، سورنا پربھات نے صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "گوپال گنج میں یکم اکتوبر کی شام مہاویر اکھاڑہ کے جلوس کے دوران دو گروپ آپس میں بھڑ گئے۔ جھڑپوں سے علاقے میں تشدد بڑھ گیا۔ تاہم، پولیس کی ٹیموں نے تھوڑی ہی دیر میں حالات کو قابو میں کر لیا۔

ایس ڈی پی او انوراگ کمار کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں وہ جلوس کے دوران ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ یہ نعرے لگاتے ہوئے جلوس کے مہاویری میدان کی قیادت کرتے ہوئے نظر آئے۔ ویڈیو میں مسجد کے قریب جلوس  کو نعرے بازی کرتے دیکھا جا سکتا ہے ۔ پولیس کے مطابق، جائے وقوعہ پر تقریباً 20 ہزار افراد کے ساتھ، ایس ڈی پی او انوراگ کمار کے اقدام  کا مقصد بھیڑ کو چکتولی کی مسجد سے دور  کرنا تھا۔

سپرنٹنڈنٹ پربھات نے کہا، "ایس ڈی پی او نے لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لیے ‘جے شری رام’ کے نعرے لگائے۔” تاہم، انہوں نے یہ بھی  کہا کہ  "پولیس یونیفارم میں مذہبی نعرے لگانا نامناسب ہے۔

مقامی رہائشی احمد کے مطابق، صورتحال اس وقت بگڑ گئی جب کئی اکھاڑے کے گروپ مسجد کے قریب پہنچے اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جلوس میں شامل لوگوں نے مسجد پر حملہ شروع کیا۔

احمد نے کہا، "وائرل ہونے والی ویڈیوز میں وہ فوٹیج نہیں ہے جب مسجد اور مسلمانوں کے گھروں پر حملہ کیا گیا تھا۔ جب دوسری طرف سے حملہ شروع ہوا تو مسلمانوں نے جوابی کارروائی کی۔احمد نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد کئی مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ "دوسری طرف سے صرف چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا جنہوں  نے ایسی صورت حال پیدا کی۔”