بھوپال :سودیشی جاگرن منچ کے صنعتی میلے سے مسلمانوں کے اسٹال ہٹائے گئے
سودیشی میلہ کے منتظمین نے کہا کہ یہاں مسلمانوں کو اسٹال لگانے کی اجازت نہیں ہے،مسلم دکانداروں نے کہا کہ فیس کی ادائیگی کے باوجود ان کو اسٹال بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے
نئی دہلی ،19 نومبر :۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول کس قدر مکدر ہو چکا ہے اس کا اندازہ لگانا اب مشکل ہو گیا ہے۔مسجدوں اور مسلمانوں کو دیکھ کر اور صرف نام سن کر اب ہندو اکثریت آپے سے باہر آ جا رہا ہے۔یہ معاملہ صرف شہروں تک ہی نہیں بلکہ دیہاتوں میں بھی نظر آنے لگا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانے کی منظم کوششیں جاری ہیں ۔بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں خاص طور پر ہندوتو کے ٹھیکیدار مسلمانوں کی دکانوں اور ہوٹلوں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں وہیں اب میلوں اور بازاروں میں مسلمانوں کو اسٹال لگانے اور کاروبار کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ تازہ معاملہ مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع کا ہے۔ جہاں سودیشی جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کئے گئے میلے سے مسلم دکانداروں کو باہر کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس میلے کا مقصد خود روزگار اور مقامی مصنوعات کو فروغ دینا تھا لیکن اب یہ ہندوتو شدت پسندوں کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہو گیاہے۔ مسلم تاجروں نے سنگین الزام لگایا ہے کہ انہیں دموہ ضلع کے تحصیل گراؤنڈ میں منعقد ‘سودیشی میلہ’ سے باہر پھینک دیا گیا اور منتظمین نے مبینہ طور پر کہا کہ "یہاں مسلمانوں کو اسٹال لگانے کی اجازت نہیں ہے۔۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹال کی بکنگ اور شرکت کی فیس ادا کرنے کے بعد انہیں اتوار کو جانے کو کہا گیا۔ یہ میلہ 14 اکتوبر سے شروع ہوا جو 24 نومبر تک جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ سودیشی جاگرن منچ نے اس میلے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیم ہے۔ آگرہ کے ایک تاجر محمد راشد نے دعویٰ کیا، "انہوں نے میرا نام پوچھا اور میری دکان بند کردی۔ یہاں ہماری 10 دکانیں تھیں۔ منتظمین نے ہمیں بتایا کہ مسلمانوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارا تمام کرایہ اور سفری اخراجات ضائع ہو گئے ہیں۔۔ لکھنؤ کے ایک دکاندار شبیر نے کہا، "انہوں نے ہمیں دکانیں لگانے سے انکار کر دیا اور ہمیں چھوڑنے کو کہا۔ بھدوہی کے ایک تاجر وکیل احمد نے کہا، "وہ مسلمانوں کو بے دخل کر رہے ہیں۔ ہم میں سے تقریباً 15-20 لوگوں کو اپنی دکانیں بند کرنے کو کہا گیا۔
بتا دیں کہ اس میلے میں مدھیہ پردیش کے علاوہ کشمیر اور دیگر ریاستوں سے تقریباً 15-20 مسلم دکاندار کی دکانیں لگائی گئی تھیں جنہیں فوری طور پر اپنا اسٹال ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔مسلم دکانداروں نے یہاں اسٹال لگانے کیلئے پیسے اور فیس جمع کئے ہیں ،رجسٹریشن کرایا ہے اس کے باوجود تین دن کے بعد انہیں دکان سمیٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں دموہ کلکٹر سدھیر کوچر نے معاملے کی جانچ کا یقین دلایا ہے۔ لیکن کلکٹر نے جاگرن منچ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں میلے میں شرکت کی اجازت دیں کیونکہ اس نے اس میلہ کا اہتمام کیا تھا۔ کوچر نے کہا، "میں نے اپنے افسران کو اس معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ کوئی سرکاری پروگرام نہیں ہے بلکہ سودیشی جاگرن منچ کا پروگرام ہے اور اس میں کسی کی شرکت کا فیصلہ کرنا ان کا حق ہے۔کلکٹر کے اس بیان کی تنقید کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ میلہ سرکاری زمین پر اور سرکاری سہولتوں سے منظم کیا گیا ہے جس میں متعدد سرکاری اداروں کے اسٹال بھی موجود ہیں ایسے میں کسی کا پرائیوٹ پروگرام قرار دینا درست نہیں ہے۔
سودیشی جاگرن منچ منتظمین کا یہ رویہ ہندوتو شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے اور ملک میں مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر سازش کا کھلا ثبوت ہے۔اس پر مزید بی جے پی کی حکومتیں بھی اس میں مکمل طور پر شامل ہیں ۔کلکٹر کا بیان کھلے طور پر اس کا اظہار ہے۔