بھارت میں کوئی علاقائی یا ریاستی زبان نہیں ،تمام زبانیں قومی اہمیت کی حامل  

زبانوں کے تنازعہ کے درمیان آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری ارون کمار کا اہم بیان،ہندی مشترکہ قومی زبان ہو سکتی ہے لیکن تھوپنا ٹھیک نہیں

نئی دہلی، 24فروری :۔

وطن عزیز میں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ایک کہاوت معروف ہے کہ ہر پانچ کوس پر زبان اور کھانا دونوں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس واضح اختلاف کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں زبان کو لے کر شدت پسندی بھی ہمیشہ عروج پر رہی ہے۔خاص طور پر جنوبی ہند میں ہندی زبان کو حکومتی زبان کے طور پر مسلط کرنے کی کوششیں شدید اختلاف کا باعث رہی ہیں ۔حالیہ دنوں میں مہاراشٹر اور کرناٹک کے درمیان  کنڑ اور مراٹھی زبان کو لے کر تنازعہ جاری ہے۔ جہاں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک بس کنڈکٹر کو مراٹھی نہ بول پانے  پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔اور ایسا پہلی بار نہیں ہے ،بلکہ پہلے بھی کنڑ ، مراٹھی  اور ہندی زبان پر تنازعات ہوتے رہے ہیں ۔حالیہ دنوں میں اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی کے ذریعہ ایوان میں اردو پر نا زیبا تبصرہ بھی اسی زبان کے تنازعہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے مگر اس پر ہمیشہ غیر ملکی ہونے اور مسلمانوں کی زبان ہونے کے اتہامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔اس زبان کے تنازعہ کے درمیان آر ایس ایس کے اہم ذمہ دار نے وضاحت کی ہے اورہندوستان کی تمام زبانوں کو قومی زبان کے طور پر تسلیم کرنے کی وکالت کی ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے جوائنٹ جنرل سکریٹری ارون کمار نے قومی زبان کے بارے میں بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہندوستان کی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں۔ تمام ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت، کام، انتظامیہ اور طرز عمل ان کی اپنی زبان میں کریں۔ ہندی کو قومی سطح پر آسانی سے رابطے کے لیے ‘مشترکہ قومی زبان’ کے طور پر تیار کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے گرو گوالکر کے حوالے سے زبان کے موجودہ تنازعہ پر کہا کہ بھارت میں کوئی علاقائی یا ریاستی زبان نہیں ہے،تمام زبانیں قومی اہمیت کی حامل ہیں۔

در اصل ارون کمار کے اس بیان کو حالیہ اردو ،مراٹھی اور کنڑ زبان پر چل رہے تنازعہ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔آر ایس ایس سر براہ کےاس  بیان  دیگرہندوستانی زبانوں کو نیچا دکھانے یا غیر ملکی باور کرانے والوں کو تنبیہ کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔

ارون کمار سے ممبئی میں آئیڈیاز آف انڈیا نام کے ایک ٹی وی ٹاک شو میں  ان سے پوچھا گیا تھا کہ آر ایس ایس  ہمیشہ پہلے قوم کی بات کرتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں بہت سی ریاستیں ہیں جو پہلے ریاست کی بات کرتی ہیں۔ خاص طور پر زبان کے حوالے سے، جیسے تمل ناڈو یا شمال مشرقی ریاستیں بھی اپنی زبان کو ترجیح دینا چاہتی ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک کی قومی زبان ہندی ہے۔ کئی ریاستوں میں اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔ تمام ریاستوں کو قومی زبان کو اپنانا چاہیے یا نہیں اس پر  آر ایس ایس  کا کیا نظریہ ہے؟

اس سوال کے جواب میں آر ایس ایس  کے جوائنٹ جنرل سکریٹری ارون کمار نے کہا کہ زبان کو لے کر پیدا ہونے والا تنازعہ افسوسناک ہے۔ ہر ریاست کو اپنی زبان کی ترقی کرنی چاہیے۔ حکومتی امور، انتظامیہ، عدالتی کام، لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ – یہ سب مقامی زبان میں ہونے چاہئیں۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان میں کوئی علاقائی زبانیں نہیں ہیں۔ ہندوستان کی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں آر ایس ایس کے سینئر سر براہ  رہےگولوالکر  کی مثال دی اور کہا کہ ایک بار تمل ناڈو میں کسی نے  گرو جی سے پوچھا کہ کیا قومی زبان ہندی ہونی چاہیے۔ تب انہوں نے کہا تھا، ‘نہیں، ہندوستان کی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں۔ تمام زبانوں میں معنی ایک ہی ہیں۔  گروجی نے مزید کہا کہ ہم نے ہندوستان کا ایک انتظامی سیٹ اپ بنایا ہے، جسے چلانے کے لیے ہمیں تمام قومی زبانوں میں سے ایک مشترکہ قومی زبان کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ کسی زمانے میں یہ سنسکرت تھی۔ آج کے دور میں ایسا ممکن نہیں۔ پھر ہندی ایسی زبان ہو سکتی ہے۔ اگر آپ ہندی کا فیصلہ نہیں کریں گے تو کوئی نہ کوئی مشترکہ قومی زبان اس کی جگہ لے لے گی۔

واضح رہے اس سے قبل  گزشتہ دنوں   جمعہ کو دہلی کے وگیان بھون میں 98ویں آل انڈیا مراٹھی ساہتیہ سمیلن  کے افتتاحی پرگرام میں وزیر اعظم نے بھی زبان کے تنازعہ پر گفتگو کرتے ہوئے لسانی تنوع  کو اتحاد کی بنیادی تصور قرار دیا تھا ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے  کہا تھا کہ ہندوستانی زبانوں کے درمیان کبھی کوئی دشمنی نہیں رہی ہے۔ زبانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنایا اور مالا مال کیا ہے۔ کئی بار زبان کے نام پر تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قسم کی غلط فہمیوں سے دور رہ کر زبانوں کو فروغ دینا اور اپنانا ہماری سماجی ذمہ داری ہے۔ آج ہم ملک کی تمام زبانوں کو مرکزی دھارے کی زبانوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہم مراٹھی سمیت تمام بڑی زبانوں میں تعلیم کی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں۔