بھارتی وزیر خارجہ کی طالبان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ’تاریخی گفتگو‘، پہلگام حملے کی مذمت کی تعریف کی
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر متقی خان سے ٹیلی فونک بات چیت

نئی دہلی ،16 مئی :۔
وقت اور حالات تبدیل ہوتے ہیں اور ایسا تبدیل ہوتے ہیں کہ اس پر یہ آنکھیں کبھی یقین نہیں کرتی ہیں ۔جنہیں کبھی ہم دیکھنا پسند نہیں کرتے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعلقات استوار کرنا پڑتا ہے ۔گزشتہ دنوں جب امریکی صدر ٹرمپ شام کے نئے سر براہ احمد الشرع کے ساتھ تصویر کھنچا رہے تھے تو دنیا حیران تھی کہ جس شخص کو کبھی امریکہ نے دنیا کا سب سے خونخوار دہشت گرد قرار دیا تھا اور کروڑ وں روپے انعام کا اعلان کیا تھا آج اسی شخص کے ساتھ اسٹیج شیئر کر رہے ہیں ۔کچھ اسی طرح بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور طالبات رہنما اور افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی گفتگو کو لے کر بھی حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن یہ سب حالات اور وقت کے موافق ہے ،بھارت کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے ۔ طالبات کے زیر اقتدار افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جمعرات کو ٹیلی فون پر بات چیت کر کے حیران کر دیا ۔ اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بھارت اور طالبان حکومت کے درمیان یہ پہلا سیاسی سطح کا رابطہ ہے۔
واضح رہے کہ یہ بات چیت جموں و کشمیر میں پہلگام حملے کے چند دن بعد ہوئی ہے، جس کی طالبان حکومت نے مذمت کی تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں آپریشن سندور شروع ہوا، جو بھارت اور پاکستان کی مشترکہ جوابی کارروائی تھی جس نے مزید فوجی کشیدگی کو جنم دیا۔ کال کے دوران جے شنکر کی طرف سے کابل کی طرف سے حملے کی مذمت کو تسلیم کیا گیا اور اس کی تعریف کی گئی۔
جے شنکر نے ایکس پر پوسٹ کیا، "آج شام قائم مقام افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ اچھی بات چیت۔ پہلگام دہشت گردانہ حملے کی ان کی مذمت کی دل کی گہرائیوں سے تعریف کی… جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹوں کے ذریعے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرنے کی حالیہ کوششوں کو سختی سے مسترد کرنے کا خیرمقدم کیا۔ خیال رہے کہ پاکستانی میڈیا کے جھوٹے دعوؤں کا حوالہ تھا کہ ہندوستانی میزائل افغان سرزمین پر مارے گئے تھے – ایک الزام جس کو ہندوستان نے "مضحکہ خیز” قرار دیا تھا۔ بھارتی وزیر نے افغان عوام کے ساتھ ہندوستان کی روایتی دوستی کا اعادہ کیا اور ترقی اور انسانی ضروریات کے لئے مسلسل تعاون کا یقین دلایا۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے کال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں نے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے، تجارت بڑھانے اور سفارتی تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ متقی نے افغان تاجروں اور طبی مریضوں کے لیے ہندوستانی ویزوں کی درخواست کی۔ انہوں نے ہندوستان میں موجود افغان قیدیوں کی رہائی اور وطن واپسی کا بھی مطالبہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت پر زور دیا اور خاص طور پر علاقائی تجارتی رابطے کے لیے چابہار بندرگاہ کے کردار کو اجاگر کیا۔
واضح رہے کہ بھارت نے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھی ہے۔ جنوری 2025 میں، خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے دبئی میں متقی سے ملاقات کی تھی۔ اپریل 2025 میں، ایم آنند پرکاش، جوائنٹ سیکرٹری انچارج پاکستان، افغانستان اور ایران کو سفارتی رابطے کے لیے کابل بھیجا گیا۔ طالبان کی وزارت خارجہ نے پرکاش کے دورے سے قبل ہی پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے علاقائی امن کو نقصان پہنچانے والا اقدام قرار دیا تھا۔
1999-2000 کے بعد یہ پہلا باضابطہ سیاسی رابطہ ہے، جب اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ قندھار میں IC-814 ہائی جیکنگ بحران کے دوران طالبان کے اس وقت کے وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کے ساتھ رابطہ کیا تھا ۔