بنگلہ دیش: جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ پر پابندی کا اعلان

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے شفیق الرحمان نے فیصلے کو ’غیرقانونی، اختیارات سے تجاوز اور غیرآئینی‘ قرار دیا

ڈھاکہ ،31 جولائی :۔

بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر تشدد کا بازار دیکھا گیا جس میں بڑی تعداد میں طلبا کی موت ہوئی اور عوامی املاک تباہ ہوئے ۔اس تحریک کے پرسکون ہونے کے بعد حکوم نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ حکومت کی جانب سے ملک بھر میں یومِ سوگ منایا جا رہا ہے جبکہ اس دوران گرفتار کیے جانے والے افراد کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں رواں ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے مسئلے پر احتجاج کیا جو بعد ازاں پُرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گیا جس کے دوران متعدد پولیس افسران سمیت کم از کم 206 افراد مارے گئے۔

یہ پُرتشدد احتجاج وزیراعظم حسینہ واجد کے 15سالہ دورِ اقتدار میں بدترین قرار دیا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، فوج کو تعینات کیا گیا اور ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس بند کی گئی۔ادھر وزیر ٹرانسپورٹ عبیدالقادر نے کہا ہے کہ حالیہ پُرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت نے ملک کی ایک بڑی پارٹی جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ  پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بنگہ دیش کی اتحادی حکومت کے نمائندوں نے متفقہ طور پر ’جماعت اسلامی اور شبر‘ کی ماضی اور حالیہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ان پر ’پابندی عائد کرنے کا فیصلہ‘ کیا ہے۔ جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے اور کالعدم قرار دیے جانے کے اس نئے حکم نامے کے بعد یہ پارٹی کسی بھی قسم کا اجتماع منعقد نہیں کر سکے گی۔

دریں اثنا جماعت اسلامی کے رہنما شفیق الرحمان نے حکومت کے اس فیصلے کو ’غیرقانونی، اختیارات سے تجاوز اور غیرآئینی‘ قرار دیا ہے۔