بنگلہ دیشی ہندوؤں کو بھارت  آنے کی ترغیب نہ دی جائے:ہمنتا بسوا شرما

نئی دہلی،03جنوری :۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما حالیہ کچھ برسوں میں ہندوتو  کے جارح رہنما کے طور پر ابھرے ہیں جو اپنے ہر فیصلے مسلمانوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں ۔انہوں نے آسام میں متعدد ایسے فیصلے لئے ہیں جو ہندوتو کی منشا کے مطابق اور مسلمانوں کے شدید خلاف ہوں لیکن گزشتہ روز انہوں نے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے سلسلے میں ایسا بیان دیا ہے جو حیران کرنے والا ہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر این آر سی نافذ کرنے والے  ہمنتا بسو ا سرما نے گزشتہ روز  بدھ کو کہا کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان آنے کی ترغیب نہیں دی جانی چاہیے۔اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش سے آسام آنے والے زیادہ تر لوگ پڑوسی ملک کی اکثریتی برادری کے لوگ ہیں نہ کہ وہاں کے اقلیتی ہندو۔

میڈیارپورٹوں کے مطابق،انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو لوگ غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں وہ مسلم اکثریتی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے کارکن ہیں، جو وہاں کے بحران کے بعد خراب حالات میں ہیں، اور وہ اسی شعبے میں شامل ہونے کے لیے تمل ناڈو جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ بنگلہ دیش کے حالات کی وجہ سے وہاں کی ٹیکسٹائل انڈسٹری تباہ ہو گئی ہے۔ ہمارے ملک میں اقلیتی کارکن سرحد پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ تمل ناڈو کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جانے کے لیے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان صنعتوں کے مالکان انہیں سستی مزدوری کے لیے آنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ جنوبی ریاست میں  ڈی ایم کے کی حکومت ہے، جو انڈیا بلاک کا ایک حصہ ہے ـانہوں نے کہا کہ اس ملک میں ہندو اقلیت اب وہاں مظالم کا سامنا کرنے کے باوجود آنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے، شاید اس لیے کہ وہ ‘ محب وطن’ ہیں  ۔

قابل ذکر ہے کہ  30 دسمبر کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے پرچارک  سمن کمار نے مرکزی حکومت سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہندوستان میں پناہ لینے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھاہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ بنگلہ دیش میں بدامنی کے بعد سے دراندازی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے پانچ مہینوں میں بنگلہ دیش سے تقریباً 1000 لوگوں کو آسام اور تقریباً اتنی ہی تعداد کو پڑوسی ریاست تریپورہ میں پکڑا گیا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی بنگلہ دیشی ہندو نہیں ہے۔