بنارس :تاریخی اورمسلم اکثریتی مارکیٹ ’دال منڈی‘ کے انہدام پرکورٹ سے راحت

ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی کوششوں سے الہ آباد ہائی کورٹ سے اسٹے حاصل

وارانسی,نئی دہلی، یکم جون:۔

بنارس کے تاریخی اور قدیم مارکیٹ  دال منڈی پر انہدام کا سایہ منڈلا رہاہے ۔ دکانداروں میں زبر دست مایوسی اور خوف کا عالم ہے ۔اس دوران کورٹ میں بھی مکینوں کی جانب سے انہدامی کارروائی پر روک لگانے کی عرضیاں داخل کی گئی ہیں ۔ دریں اثنا ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر)  کی کوششوں سے دال منڈی کے دکانداروں کو تھوڑی راحت ملی ہے ۔

اے پی سی آر کی عرضی پر   الہٰ آباد ہائی کورٹ  نےدال منڈی علاقے میں مجوزہ انہدام کے خلاف اسٹے آرڈر  جاری کیا ہے۔مقامی کارپوریشن نے سڑک کی توسیع کا حوالہ دے کر انہدامی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے ۔جس سے ہزاروں  کی تعداد میں مسلم دکانداروں متاثر ہو رہے ہیں۔

واضح رہے کہ دال منڈی، جو وارانسی کے قلب میں واقع ایک تاریخی بازار ہے، اپنی ثقافتی ہم آہنگی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے معروف ہے، جہاں 10 ہزار سے زائد دکانیں قائم ہیں، جن میں اکثریت مسلم تاجروں کی ہے۔ اب یہ علاقہ حکومت کے شہری ترقیاتی منصوبے، بالخصوص کاشی وشو ناتھ کوریڈور سے منسلک سڑک کی توسیع کے منصوبے کی زد میں ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو سکتے ہیں اور نسلوں سے قائم روزگار متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

عرضی گزار اے۔ پی۔ سی۔ آر نے عدالت سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، وارانسی کے افسران کی جانب سے دکان خالی کرنے اور ملکیت حکومت کو حوالے کرنے کے لیے دباؤ اور دھمکی دی جا رہی ہے، جب کہ قانونی طور پر نہ تو زمین کا حصول کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔

معروف سینئر وکیل سید فرمان احمد نقوی، جنہوں نے   کیس کی پیروی کی، انہوں نے  عدالت میں دلیل دی کہ جب تک حکومت قانونی طور پر جائیداد حاصل نہ کرلے، تب تک کسی بھی طرح کی بے دخلی یا انہدام پوری طرح سے غیر قانونی عمل ہے۔ ریاستی وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ جب تک ملکیت کا قانونی حصول نہیں ہو جاتا، نہ تو دکان خالی کروائی جائے گی اور نہ ہی کسی قسم کا انہدام کیا جائے گا۔

جسٹس سلیل کمار رائے اور جسٹس ارون کمار سنگھ دیسوال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے عرضی گزار اے۔ پی۔ سی۔ آر کے حقوق کا تحفظ کیا۔

واضح رہے کہ یہ حکم دال منڈی کے مقامی تاجروں اور رہائشیوں کے لیے بڑی راحت ہے، جو قانونی کارروائی کے بغیر جبری بے دخلی اور انہدام کے خدشات کا سامنا کر رہے تھے۔