بلقیس بانو:سپریم کورٹ کا فیصلہ امید کی ایک نئی کرن

نئی دہلی،08جنوری:۔

سال2022 میں 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے جب وزیر اعظم ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کا عزم کررہے تھے ٹھیک اسی وقت وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں سزا یافتہ  اجتماعی عصمت دری کے قصور واروں کو حکومت رہائی کا پروانہ سونپ رہی تھی ۔گیارہ قصورواروں کی رہائی کے بعد ان کا تلک لگا کر اور آرتی اتار کر اس طرح استقبال کیا جا رہا تھا گویا وہ کوئی جنگ فتح کر کے گھر لوٹ رہے ہیں۔اس معاملے کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم کے خواتین کے خلاف جرائم پر سختی کے عزم پر سوال اٹھائے گئے ۔اجتماعی عصمت دری اورسات افراد کے قتل کے  گھناونے جرم کے مجرمین کے ساتھ ہمدردی نے بی جے پی کی خواتین کے تعلق سےپالیسی کو آشکارا کر دیاتھا۔بیس سال سے انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والی بلقیس بانو کی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی تھی۔قصور واروں کی رہائی کے بعد بلقیس بانو نے بھیگی پلکوں کے ساتھ کہا تھا کہ اس کی بیس سال کی جدو جہد پر گجرات حکومت نے پانی پھیر دیا ،قصور واروں کی سزا کے بعد عدالتی انصاف پر جو اعتماد پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے  ۔لیکن بلقیس بانو نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور پھر سے سپریم کورٹ کی چوکھٹ پر پہنچی اور رہائی کے خلاف عرضی داخل کی ۔تاخیر سے ہی سہی آج سپریم کورٹ نے تمام قصور واروں کی رہائی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے بلقیس بانو کی ٹوٹتی انصاف کی ڈور کو مضبوطی فراہم کی ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے ۔

سپریم کورٹ نے آج سنائے گئے اپنے فیصلے میں نہ صرف گجرات حکومت کے فیصلے کو رد کر دیا بلکہ گجرات حکومت کو پھٹکار بھی لگائی اور  کہا کہ جہاں مجرموں کے خلاف مقدمہ چلا اور سزا سنائی گئی، وہی ریاست قصورواروں کی سزا معافی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ یعنی قصوواروں کی سزا معافی کا فیصلہ گجرات حکومت نہیں کر سکتی، بلکہ مہاراشٹر حکومت اس معاملے پر فیصلہ کرے گی کیونکہ بلقیس بانو معاملے کی سماعت مہاراشٹر میں ہی ہوئی تھی۔ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گجرات حکومت کا فیصلہ طاقت کا غلط استعمال تھا۔ سپریم کورٹ نے سبھی 11 قصورواروں کو اگلے دو ہفتے میں جیل اتھارٹی کے سامنے خود سپردگی کا حکم بھی دیا ہے۔

حالانکہ گجرات کی بی جے پی حکومت میں جس سیاسی مقصد کے تحت ان گیارہ قصور واروں کی رہائی کا فیصلہ کیا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گئے ۔گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران اس معاملے پر جم کر سیاست ہوئی اور بی جے پی ہندو مجرموں کی رہائی کے پس پردہ ہندو اکثریت کے ووٹوں کو پولرائز کرنے میں کامیاب رہی ۔ مگر آج کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے بی جے پی کی خواتین کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔گجرات کی بی جے پی حکومت نے محض اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے سرعت کے ساتھ ان گھناونے جرم کے مرتکبین کو اچھے اخلاق اور حسن سلوک کا حوالہ دے کر آئین سے پرے جا کر رہائی کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا جا رہا ہے ۔ملک کا انصاف پسند طبقہ اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے انصاف کے تئیں عوام کے اعتماد کو مضبوط کرنے والا بتایا ہے ۔  اب کئی سماجی کارکنان اور اپوزیشن لیڈران بی جے پی پر حملہ آور ہیں۔ کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بالآخر انصاف کی جیت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے دوران اجتماعی عصمت دری کی شکار بلقیس بانو کے ملزمین کی رِہائی رد کر دی ہے۔ اس حکم سے بی جے پی کی خاتون مخالف پالیسیوں پر پڑا ہوا پردہ ہٹ گیا ہے۔ اس حکم کے بعد عوام کا نظامِ انصاف کے تئیں اعتماد مزید مضبوط ہوگا۔ بہادری کے ساتھ اپنی جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بلقیس بانو کو مبارکباد۔

راہل گاندھی نے کہا کہ انتخابی فائدے کے لیے ’انصاف کا قتل‘ کرنے کی روش جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہے۔ آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک بار پھر ملک کو بتا دیا کہ ’مجرموں کا محافظ‘ کون ہے۔

اسدالدین اویسی نے بھی فیصلے پر د عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پہلے دن سے ہی یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک پارٹی کے طور پر بی جے پی بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کرنے والوں کی مدد کرتی رہی ہے۔ اب یہ بات سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے ایک بار پھر سچ ثابت ہو گئی۔ میں بلقیس بانو کی بہادری کو سلام کرتا ہوں۔ بی جے پی کو بلقیس بانو کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔