بلا وجہ  تبدیلی مذہب قانون  کے تحت  جرئم عائد  کرنے پر یوپی حکومت کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

  چیف جسٹس آف انڈیا کھنہ نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے یوپی پولیس کو متعصب قرار دیا

نئی دہلی،21 مارچ :۔

سپریم کورٹ نے  ایک بار پھر اتر پردیش حکومت کو بلا وجہ غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ کا استعمال کرنے پر پھٹکار لگائی ہے۔در اصل معاملہ عصمت دری کا ہے جس میں اتر پردیش حکومت نے ملزم کے خلاف غیر قانوی تبدیلی مذہب قانون 2021 کے تحت جرم عائد کر دیاہے۔ جس پر جمعرات   سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یو پی حکومت کی شدید سر زنش کی ۔

جمعرات کو ضمانت کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے ریاستی حکومت کو ‘بغیر کسی وجہ کے’ تبدیلی مذہب قانون نافذ کرنے کے لیے سرزنش کی ۔

رپورٹ کے مطابق، بنچ  5 ستمبر 2024  کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک اپیل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں ایک ہندو خاتون، جس کی پہلے سے ایک بیٹی ہے، کو زبردستی اسلام قبول کرنے اور اس کے ساتھ ‘نکاح’ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

ہائی کورٹ نے انہیں  ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘آئین ہر شخص کو اپنے مذہب کو ماننے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے۔ تاہم، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے انفرادی حق کو تبدیلی مذہب کے اجتماعی حق کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا؛ مذہبی آزادی کا حق مذہب تبدیل کرنے والے اور تبدیل ہونے والے دونوں کے لیےیکساں ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 14 فروری 2025 کو جب عدالت نے اپیل پر نوٹس جاری کیا تو درخواست گزار کے وکیل نے بنچ کو بتایا کہ ‘یہ اتفاق رائے سے بنے رشتے  کا معاملہ ہے جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کو طویل عرصے سے جانتے تھے اور شکایت کنندہ/متاثرہ کا سابقہ رشتہ/شادی سے ایک بچہ بھی ہے، لیکن درخواست گزار کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔

جمعرات کو وکیل نے بنچ کو بتایا کہ وہ پچھلے آٹھ ماہ سے جیل میں ہے…’صرف ایک عورت کی مدد کرنے کے لیے’۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی کھنہ نے کہا، ‘چھوڑیے، اصل میں میں بھی حیران ہوں، میں یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا، ریاستی پولیس بھی متعصب ہے… یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ حقائق خود بولتے ہیں، اور آپ بغیر کسی وجہ کے تبدیلی مذہب کا قانون نافذ کر رہے ہیں۔

اس کیس میں درخواست گزار، جس پر مبینہ ریپ  اور غیر قانونی تبدیلی مذہب  کا الزام ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہے، نے پہلے عدالت کو بتایا تھا کہ یہ مقدمہ رضامندی کا رشتہ تھا اور اس کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔

درخواست گزار کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی کھنہ نے کہا،’اس میں کچھ بھی نہیں ہے… آپ اس میں غیرجانبدار نہیں ہیں ، ریاست اس میں غیرجانبدار نہیں ہے… حقائق خود بولتے ہیں۔ اور کنورژن ایکٹ کو نافذ کرنا؟ نامناسب! یہ بالکل درست نہیں ہے۔  عدالت نے ریاست کو دو ہفتوں کے اندر اپنا جواب یا جواب کا جواب (اگر کوئی ہے) داخل کرنے کی آزادی دی۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں ایسے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں جن میں پسماندہ طبقات کے لوگوں پر تبدیلی مذہب  کے جھوٹے الزام لگائے گئے  اور بعد میں عدالتوں نے انہیں بری کر دیا۔