بارہ بنکی میں شدت پسند ہندوہجوم کا مسجد کے سامنے ہنگامہ ،اشتعال انگیز نعرے بازی

نئی دہلی ،بارہ بنکی15  اکتوبر:

حالیہ دنوں میں گزرے تہوار کے دوران بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما ہوئےہیں۔جلوس کے دوران متعدد مقامات پر مساجد کے سامنے اور مسلم محلوں میں اشتعال انگیز گانیں اورڈی جے بجائے جا نے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔اسی سلسلے میں ایک ویڈیو بارہ بنکی کے تعلق سے سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں  ہندوتوا کے لوگوں کے ہجوم نے دسہرہ کے جلوس کے دوران مسجد کو نشانہ بنایا، مسجد کے صحن میں جوتے اور چپل پھینکے۔

دسہرہ تہوار کے بعد سے اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کی مسلسل خبریں آرہی ہیں، بہرائچ میں پچھلے دو دنوں سے تشدد جاری ہے، وہیں بارہ بنکی کی ویڈیو حیران کن اور افسوسناک ہے۔

رپورٹ کے مطابق 13 اکتوبر کو بارہ بنکی کے سلوری گوسپور میں ہندوتواہجوم نے رضامسجد کو نشانہ بنایا۔ آپ کو بتادیں کہ دسہرہ تہوار کے دوران مورتی وسرجن کی تقریب کے دوران کچھ فرقہ پرست گروہوں نے جان بوجھ کر مسجد کے قریب کھڑے ہو کر قابل اعتراض زبان میں مشہور ہندوتوا گانے بجائے۔ جس میں اشتعال انگیز الفاظ میں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا گیا ہےفحش الفاظ کا استعمال کر کے ہنگامہ کیا گیا۔

انہوں نے مسجد کے صحن میں چپل، جوتے اور رنگ بھی پھینکا تاکہ مسلمانوں کی تذلیل کی جائے اور ان کے عقیدے کی توہین کی جائے۔اس واقعہ سے متعلق ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں روضہ مسجد کے سبز دروازے کے سامنے آسمان پر زعفرانی جھنڈے لہراتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق مقامی باشندہ محمد رفیق نے بھی اس معاملے کو لے کر سلوری گنج پور پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔انہوں نے شکایت میں کہاکہ”  مورتی وسرجن جلوس کے دوران آلوک موریہ، بیٹے منٹو اور ابھیشیک چوہان، بیٹے بیدیا ناتھ اور دیگر جو ‘ورما ساؤنڈ سروس’ کی گاڑی میں سوار ہوئے تھے، نے مسجد پر حملہ کیا۔ انہوں نے مسجد پر جوتے، چپل اور رنگ پھینکے۔رفیق نے بتایا کہ مسجد کے گنبد پر بیئر کے کین بھی پھینکے گئے اور لوگ انتہائی قابل اعتراض گانوں کی دھنوں پر ناچ رہے تھے۔اس سلسلے میں پولیس نے شکایت لینے کے بجائے از خود نوٹس لینے کا ذکر کرتے ہوئے کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔حساس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس نے علاقے میں پولیس کی نفرتی تعینات کر دی ہےلیکن مقامی مسلمانوں میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔اس سلسلے میں گاؤں والوں نے گاؤں کے سربراہ کی شمولیت کی طرف بھی اشارہ کیا جو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقامی لیڈر ہے۔

آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق محمد رفیق نے کہا کہ”حملے کی منصوبہ بندی ہمارے گاؤں کے سربراہ پرویش موریہ کی ہدایت پر کی گئی تھی۔ فرقہ پرستی کو بھڑکانے والے اور عوام کو اکسانے والے دو لڑکے اس کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پرویش کا بھائی بھی ہمارے خلاف غنڈہ گردی کو ہوا دے رہا تھا اور نتیجتاً، جو کچھ ہوا اس کے لیے وہ بھی ذمہ دار ہے۔تاہم مقامی مسلمان اتنے حوصلہ مند ہیں کہ وہ متاثرہ  مسجد میں 5 بار مسجد تک پہنچ  کر  اپنے معمولات پر قائم رہتے  ہوئےمولانا ایاز کی امامت میں نماز ادا کر رہے ہیں۔