بابری مسجد فیصلے کے اگلے دن قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنی رہائش گاہ پر ہندو اور مسلم رہنماؤں سے کی ملاقات

قومی سلامتی مشیر کی میٹنگ میں جماعت اسلامی ہند کء نائب صدر نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے عدام اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن اس فیصلے سے مطمئن نہیں۔

نئی دہلی، نومبر 10 : بابری مسجد تنازعہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک دن بعد قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوبھال نے اتوار کے روز اپنی رہائش گاہ پر ممتاز مذہبی اور سماجی رہنماؤں کا اجلاس منعقد کیا۔

[pullquote]ہم فیصلے سے حیران، عدم مطمئن اور مایوس ہیں۔ لیکن ہم سپریم کورٹ اور اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔(محمد سلیم انجینئر) [/pullquote]

ڈوبھال کے ساتھ بات چیت کے دوران مذہبی رہنماؤں نے ملک میں امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔

تمام مذاہب کے رہنماؤں نے فیصلے کے بعد مختلف برادریوں کے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سراہا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کو مستحکم کرنے کے لیے باقاعدہ وقفوں سے اس طرح کے بین المذاہب اجلاسوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے کردار کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوؤں نے مندر کے لیے متنازعہ زمین کے حصول کے بعد جشن نہیں منایا تو مسلمان بھی مشتعل یا پرتشدد رد عمل کا اظہار کرنے سے باز رہے کیونکہ دونوں فریقوں نے عدالت عظمی کے فیصلے کا احترام کیا۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ دونوں فریقوں نے تحمل برقرار رکھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ذمہ داری اور حساسیت کا مظاہرہ کیا جس سے حکومت کو امن و امان برقرار رکھنے میں مدد ملی۔

سبھی شرکا نے ایک آواز میں کہا کہ فیصلہ نہ تو کسی فریق کی فتح ہے اور نہ ہی شکست۔

اجلاس کے اختتام پر تمام شرکا کا مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے "تمام شرکا نے قانون کی حکمرانی اور ہندستان کے آئین پر مکمل اعتماد ظاہر کیا۔ قائدین نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام کرنے کا عزم کیا اور پورے ملک سے اس کی پاسداری کرنے کی اپیل کی۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قومی مفاد دیگر تمام مفادات سے اہم ہے، انہوں نے امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں حکومت سے اپنا مکمل تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی۔”

جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر جو دو درجن سے زیادہ شرکاء میں شامل تھے ، نے ڈوبھال کو بتایا ‘‘ہم فیصلے سے حیران، عدم مطمئن اور مایوس ہیں۔ لیکن ہم سپریم کورٹ اور اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری کریں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے۔’’

انہوں نے تمام عقائد اور برادری کے لوگوں سے بھی امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی۔

انجینیئر محمد سلیم نے ہندوؤں کے ذریعہ سکون اور فیصلے کے بعد مسلمانوں کے ذریعہ دکھائے جانے والےصبر کی تعریف کی۔ انہوں نے مختلف برادریوں کے مابین مواصلات کو مستحکم کرنے کے لیے اس طرح کے اجلاسوں اور باقاعدہ وقفوں سے مکالمے کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) کے نوید حامد نے ڈوبھال کو قومی یکجہتی کونسل کو بحال کرنے کا مشورہ دیا۔

اجمیر شریف درگاہ کی نمائندگی کرنے والے سید زین العابدین علی خان نے بھی اجلاس کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت آگیا جب ہندو مسلم تنازعات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد نے کہا کہ یہ واقعی قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد ایک بھی پرتشدد واقعہ نہیں ہوا۔

جمعیت اہل حدیث کے مولانا اصغر علی امام مہدی نے کہا کہ مسلم مذہبی رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا احترام کریں گے اور انہوں نے اسے برقرار رکھا۔

اس میٹنگ میں شریک دیگر افراد میں اے آئی ایم ایم ایم کے مجتبیٰ فاروق، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے آلوک کمار، یوگا گرو بابا رام دیو، سوامی پرماتمانند سرسوتی، سوامی چیدانند سرسوتی جی اور مغربی اور جنوبی ہندوستان کے بہت سے دوسرے مذہبی رہنما شامل تھے۔