بائبل تقسیم کرنا یا بھنڈارا لگاناتبدیلی مذہب کے لئے لالچ دینا  نہیں: الہ آباد ہائی کورٹ

نئی دہلی،08ستمبر :۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں عیسائیوں کے ذریعہ عوام میں بائبل تقسیم کرنا یا مسلمانوں کے ذریعہ قرآن تقسیم کرنا یا مذہبی کتابیں فروخت کرنا ہندو شدت پسندوں  کی نظر میں لالچ یا فریب دے کر جبراً تبدیلی مذہب سمجھا جا رہا ہے وہیں الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی تشریح کرتے ہوئے انہیں آئینہ دکھایا ہے ۔  مذہب کی تبدیلی سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران اتر پردیش کے مذہبی تبدیلی قانون 2021 کی تشریح کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مقدس بائبل تقسیم کرنا یا بھنڈارا لگانااتر پردیش کے  غیر قانونی تبدیلی مذہب پر پابندی  ایکٹ 2021 کے تحت   مذہب کی تبدیلی کے لیے ‘لالچ ‘دینا نہیں ہے۔

عدالت نے یہ تبصرہ دو عیسائی افراد (جوز پاپاچن اور شیجا) کو ضمانت دیتے ہوئے کیا۔ دونوں پر درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے درمیان مذہبی تبدیلی (ہندو مذہب سے عیسائیت میں) کا لالچ دینے کا الزام تھا۔

جسٹس شمیم ​​احمد کی بنچ نے یوپی کے غیر قانونی مذہبی تبدیلی پر پابندی ایکٹ 2021 کے سیکشن 4 کے دائرہ کار کی بھی وضاحت کی۔

سماعت کے دوران اپنی وضاحت میں عدالت نے یہ بھی بتایا کہ قانون کی دفعہ 3 کے تحت جبری تبدیلی مذہب کے جرم کے سلسلے میں ایف آئی آر درج کرنے کا حق کس کو ہے۔

عدالت نے کہا، ”… شکایت کنندہ کے پاس موجودہ ایف آئی آر درج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، جیسا کہ ایکٹ 2021 کے سیکشن 4 کے تحت فراہم کیا گیا ہے۔ اپیل کنندگان کے وکیل کے دلائل سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اچھی تعلیم دینا، مقدس بائبل کی کتابیں تقسیم کرنا، بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینا، گاؤں والوں کی میٹنگیں منعقد کرنا، بھنڈاروں کا انعقاد کرنا اور گاؤں والوں کو جھگڑے اور شراب نوشی میں ملوث نہ ہونے کی تعلیم دینا وغیرہ  کی ہدایت کرنا فتنہ نہیں ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شمیم ​​احمد کی بنچ نے کہا کہ اتر پردیش پرہیبیشن آف غیر قانونی تبدیلی مذہب ایکٹ 2021 کے تحت مذہبی تبدیلی کے لیے اچھی تعلیم دینا، مقدس بائبل کی کتابوں کی تقسیم اور ذخیرہ کرنا تبدیلی مذہب کے لئے لالچ دینے کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

لائیو لا کے مطابق، عدالت نے واضح کیا کہ مذکورہ شق کے مینڈیٹ کے مطابق، صرف والدین، بھائی، بہنیں یا خونی رشتے، شادی یا گود لینے والے شخص سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہی اس طرح کی تبدیلی کے الزامات   سے متعلق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ مندرجہ بالا لوگوں کے علاوہ کوئی اور شخص تبدیلی مذہب کے حوالے سے ایف آئی آر درج نہیں کر سکتا۔

عدالت نے دو مسیحی افراد (جوز پاپاچن اور شیجا) کو ضمانت دیتے ہوئے اہم تبصرہ کیا۔ دونوں پر درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی مذہبی تبدیلی (ہندو مذہب سے عیسائیت میں) انہیں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کا الزام تھا۔

عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ ایسا کوئی مواد دستیاب نہیں ہے جو جبری تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہو۔عدالت نے اپیل منظور کرتے ہوئے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس میں شکایت کنندہ کے پاس ایکٹ 2021 کی دفعہ 4 کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔