اے ایم یو‘ کے اقلیتی درجہ پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کا خیر مقدم

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ اس فیصلے سے ملک میں تمام مذہبی ، لسانی اور ثقافتی اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم ہوگا

نئی دہلی،09نومبر:

علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کےاقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے ذریعہ آئے حالیہ فیصلے کی مسلم تنظیموں ،اداروں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔معروف ہستیوں نے اس فیصلے کو تاریخی اور مسلمانوں کی تعلیمی سر گرمیوں کے لئے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ ” سپریم کورٹ نے’ اے ایم یو‘ کے اقلیتی درجہ کو برقرار رکھنے کا تاریخی فیصلہ سنایا ہے، ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں“۔ انہوں نے کہا کہ ” عدالت نے اپنے اس فیصلے میں عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس کے سابقہ فیصلہ کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک مرکزی یونیورسٹی ہے، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے ہزاروں اداروں کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی جنہیں مستقبل میں قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس فیصلے سے ملک میں تمام مذہبی ، لسانی اور ثقافتی اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم ہوگا“۔

امیر جماعت نے فیصلے کی باریکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ” سپریم کوٹ نے فی الحال ’اے ایم یو‘ کا اقلیتی درجہ برقرار رکھا ہے مگر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس پر ایک نئی تین رکنی ریگولر بینچ ، اے ایم یو کے اقلیتی درجے پر حتمی فیصلہ دے گی اور حقائق کا پتہ لگائے گی کہ اس یونیورسٹی کوکس نے قائم کیا اور اس کو چلانے میں کس نے مالی مدد کی۔ بہر کیف یہ تاریخ کی ایک پختہ حقیقت ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد سرسید احمد خان نے اقلیتی مسلم طبقہ کی تعلیمی ترقی کے لیے رکھی تھی“۔

امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” ہمیں امید ہے کہ حکومت اور حکام اس پہلو کو سمجھیں گے کہ اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس ملک کا حصہ ہیں اور انہیں بھی تعلیم ، معاش، سکورٹی وغیرہ کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ہی ملک و قوم کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے اورملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ان کے تعلیمی اداورں میں بلا تفریق مذہب و ملت اور ذات برادری طلباءکے لیے معیاری خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ لہٰذا حکومت کو ان کے تعلق سے سوچ میں تبدیلی لانی چاہئے اور ایسے حالات نہیں پیدا ہونے دینا چاہئے کہ انہیں عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے۔ انہیں تمام ترقیاتی ایجنڈے میں ترجیحی طور پر شامل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ اقلیتوں کو کسی امتیاز کا سامنا نہ کرنا پڑے ، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کے اداروں کی حفاظت، ان کی گرتی ہوئی تعلیمی و اقتصادی حیثیت کو بہتر بنانے ، ان کی ترقیات کے لیے مثبت اقدامات کو متعارف کرانے اور ان پر عمل ا?وری کو یقینی بنانے پر حکومت کو خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ مذہبی اقلیتوں کے لیے ترقیاتی مواقع کی فراہمی کسی بھی جمہوری ملک کی خصوصیت اور اس کی شان ہوتی ہے اور اس سے ملک اور ملک کی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے“