اے ایس آئی نےبھوج شالہ کی سروے رپورٹ ہائی کورٹ میں پیش کی
98دنوں کی مسلسل سروے کے بعد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے دو ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ،22 کو اگلی سماعت
نئی دہلی ،15 جولائی :۔
مدھیہ پردیش میں واقع کمال مولی مسجد اور فوج شالہ کی سروے رپورٹ اے ایس آئی نے آج ہائی کورٹ میں پیش کر دی ہے۔ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے رپورٹ ہائی کورٹ کی اندور بنچ کو سونپ دی ہے۔ یہ سروے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے تھا کہ آیا بھوج شالہ مسجد ہے یا مندر۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے وکیل ہمانشو جوشی نے پیر کو اندور ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کی۔ تمام فریقین کو اس رپورٹ کو میڈیا کے ساتھ شیئر نہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ رپورٹ 2000 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ سروے اور کھدائی کے دوران ملنے والے 1700 سے زائد شواہد کو اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس پر سماعت 22 جولائی کو ہوگی۔
بھوج شالہ کے مندر و مسجد کے حوالے کافی عرصہ سے تنازع جاری ہے، یہاں منگل کو پوجا کی جاتی ہے اور جمعہ کو نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہ تنازعہ جب ہائی کورٹ کی اندور بنچ تک پہنچا تو ہائی کورٹ نے اس کا اے ایس آئی کے ذریعے سروے کرنے کی ہدایت دی۔ اے ایس آئی نے 22 مارچ سے سروے شروع کیا جو 27 جون تک جاری رہا۔ یہ سروے کل 98 دنوں تک کیا گیا۔ اے ایس آئی کی درخواست پر ہائی کورٹ نے 10 دن کا اضافی وقت دیا تھا۔
اے ایس آئی کے وکیل ہمانشو جوشی نے کہا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کئے گئے سائنسی سروے کی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رپورٹ دو ہزار صفحات کی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ اس رپورٹ میں 98 دن کے طویل سروے کے دوران اکٹھے کیے گئے شواہد کے 1700 سے زائد ٹکڑوں کا تجزیہ شامل ہے اور کھدائی میں پائے جانے والے باقیات ہیں۔ اس رپورٹ کی کاپی کیس میں شامل تمام فریقین کو فراہم کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود رپورٹ میں کیا ہے وہ ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ بھوج شالہ مندر ہے یا مسجد۔
یہاں ہندو فریق کے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جو سروے رپورٹ پیش کی گئی ہے اس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ راجہ بھوج نے تعمیرکی تھی۔ ہندو فریق کی جانب سے درخواست گزار آشیش گوئل نے دعویٰ کیا کہ ہمارے سامنے جو سروے کیا گیا تھا اس کی بنیاد پر ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ عمارت راجہ بھوج کے دور کی ثابت ہوگی جو کہ 1034 میں بنی تھی۔ اے ایس آئی کو اس سروے میں بہت سے قدیم مجسمے ملے ہیں جو پرمار دور کے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح یہ پرمار دور کی عمارت ہے۔ ا
ہندو فار جسٹس نے درخواست دائر کی تھی
قابل ذکر ہے کہ بھوج شالا کو لے کر کئی دہائیوں سے تنازع چل رہا ہے۔ ہندو فار جسٹس نے ایک سال قبل مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی اندور بنچ کے سامنے ایک عرضی دائر کی تھی، جس میں بھوج شالہ کے احاطے میں نماز جمعہ کو روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ہندو لوگ منگل کو بھوج شالہ میں پوجا کرتے ہیں اور مسلمان جمعہ کو وہاں نماز پڑھ کر اسے ناپاک کرتے ہیں۔ 11 مارچ 2024 کو سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا تھا کہ اے ایس آئی بھوج شالہ کی سائنسی سروے کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔