ایک کروڑ دستخطوں کے ساتھ انسدادِ وقف قانون کی تجویز وزیر اعظم کو بھیجی جائے گی

 جمعیة علمائے ہند  مغربی بنگال کی جانب سے اعلان،گھر گھر مہم چلا کر ہدف کو مکمل کیا جائے گا

نئی دہلی ،کولکاتہ، 10 اپریل :۔

وقف ترمیمی بل کے خلاف ملک بھر میں مسلم تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں مسلمان پوری شدت کے ساتھ اس بل کے خلاف سڑکوں پرہیں۔گزشتہ دنوں کیرالہ میں احتجاج کیا گیا ۔وہیں مغربی بنگال میں بھی احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ۔ ممتا بنرجی نے مکمل طور پر اس بل کے خلاف مسلم تنظیموں کی حمایت کی ہے اور کھل کر حمایت کا اظہار کیا ہے ۔ وہیں آج مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتہ کے رام لیلا میدان میں منعقدہ ایک بڑے اجتماع میں جمعیة علماء ہند کی بنگال یونٹ نے وقف ایکٹ کے خلاف زبردست تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے ریاستی صدر اور ریاستی وزیر صدیق اللہ چودھری کی قیادت میں جمعیة نے اعلان کیا کہ وہ وقف قانون کے خلاف احتجاج میں ایک کروڑ لوگوں کے دستخط جمع کر کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھیجیں گے اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کریں گے۔

میٹنگ میں چودھری نے کہا کہ ہم بنگال کے مختلف اضلاع اور قصبوں سے دستخط جمع کریں گے۔ اس سے قبل بھی عوامی دباؤ پر کئی قوانین واپس لیے جا چکے ہیں اور ہم اس قانون کو بھی ایک کروڑ دستخطوں سے منسوخ کرائیں گے۔ اس مہم کے لیے رضاکاروں کو تعینات کیا جائے گا جو گھر گھر جا کر حمایت حاصل کریں گے۔ اس کے ساتھ قانونی جنگ کے لیے کراؤڈ فنڈنگ مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ وقف ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت اگلے ہفتے کرے گی۔

جمعیة علمائے ہند نے اپنی قرارداد میں الزام لگایا ہے کہ پارلیمنٹ سے حال ہی میں منظور کیا گیا وقف ایکٹ اقلیتی برادری کے مذہبی حقوق پر حملہ ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 26 کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وقف بورڈ کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے اور بیوروکریٹس کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیتا ہے۔

قانون کے ذریعے مرکزی حکومت وقف املاک پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ قانون مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے منظور کیا گیا۔ وقف کونسلوں میں غیر مسلم ارکان کی لازمی تقرری اور ریاستی حکام کو جائیداد کے تنازعات پر فیصلہ کرنے کا حق دینا مسلم کمیونٹی کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ جمعیة کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے یہ قانون واپس نہ لیا تو تحریک مزید تیز کی جائے گی۔