ایک ٹیچر ایسی بھی: بینائی سے محروم الفیہ طلباء میں تعلیم کی روشنی بکھیر رہی ہیں

شبانہ اعجاز
کولکاتا

 

کہتے ہیں کہ اگر انسان کا حوصلہ بلند ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ کولکاتا کی Alefiya Tundawala نے بھی اپنی تمام تر پریشانیوں کے باوجود اپنے حوصلے کو پست ہونے نہیں دیا اور اپنے بلند حوصلے کے باعث ہی انہوں نے اپنے خواب کو یقینی بنایا ہے درس و تدریس سے جڑی الفیہ نے سرکاری کالج میں نوکری حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ اپ سوچ رہے ہوں گے کہ اخر الفیہ میں ایسی کیا خاص بات ہے کیونکہ اج ہمارے سماج میں ہزاروں لوگ درس و تدریس کے شعبے سے جڑے ہیں لیکن ان سب میں شاید الفیہ کی کہانی سب سے الگ ہے۔ کولکاتہ کی الفیہ کولکاتہ کے سرکاری ساوتری گرلز کالج میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھا رہی ہیں الفیہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ انکھوں کی روشنی سے محروم ہے لیکن تعلیم کی روشنی پھیلا رہی ہے۔
"قصہ زندگی کا کبھی شروع ہی نہ ہوا ہوتا _اگر زندگی کو زندگی بنانے والا گرو ہی نہ ہوا ہوتا.
جی ہاں ہمارے سماج میں استاد کا یہی درجہ ہے کہتے ہیں کہ ماں باپ بچے کو زندگی دیتے ہیں تو وہیں استاد انکی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو نہ صرف بچوں کو وقت کے ساتھ ساتھ سمجھدار بناتے ہیں بلکہ ان کو زندگی جینے کا زندگی میں کچھ کرنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں ہمارے سماج میں ہزاروں اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنے اسٹوڈنٹس کو اگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ کامیابی کی داستانوں میں لوگ اپنے اساتذہ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے بچپن میں اسکول سے لے کر کالج تک کے سفر میں کئی ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جو اپنے طالبعلموں کی رہنمائی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کے پیشے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے کافی احترام کیا جاتا ہے ہمارے ملک میں 5/ ستمبر کے دن کو ٹیچرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 5/ ستمبر کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کا یوم پیدائش بھی ہے جو تعلیم وتدریس کے زبردست حامی اور شیدائی کے ساتھ ساتھ معروف سفارتکار، اسکالر، صدر جمہوریہ ہند ہونے کے باوجود وہ ایک عظیم معلم بھی تھے۔
ٹیچرز ڈے کے موقع پر ہماری ٹیم اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ملک بھر میں ہزاروں اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے اور سٹوڈنٹس کی زندگی سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اج ہم بات کریں گے الفیہ کی کیوں خاص ہے کولکاتہ کی رہنے والی الفیہ retinitis pigmentosa بیماری کی شکار ہیں پیدائشی طور پر وہ اس بیماری کا شکار ہیں گھر والوں کو ان کے اس بیماری کی بارے اس وقت معلوم ہوا جب انہیں دیکھنے میں پریشانی ہوئی الفیہ کہتی ہیں کہ وہ دیکھ تو سکتی تھی لیکن صرف سورج کی روشنی میں سورج کی تیز روشنی ہی ان کی انکھوں میں بھی روشنی بکھیرتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے سورج کی یہ روشنی بھی الفیہ کے لیے مانند پڑتی گئی گھر والوں نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ الفیہ retinitis pigmentosa  بیماری کی شکار ہیں یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں دھیرے دھیرے انسان اپنی بینائی کھو دیتا ہے۔ اس بیماری کے بارے میں پتہ لگتے ہی گھر والوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن الفیہ کے والد کے مطابق ڈاکٹرز نے ان سے ایک ہی بات کہی تھی کہ اگر اپ اپنی بیٹی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے تعلیم یافتہ بنادیں اور یہی ایک بات الفیہ کے والد کو اس طرح متاثر کر گئی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے رات دن ایک کر دیا شہر کے مشہور اسکول میں گھر والوں نے الفیہ کا داخلہ کرایا شروع میں تو ٹیچر کو بھی احساس نہیں ہوا کہ الفیہ اس طرح کی بیماری کی شکار ہیں بعد میں الفیہ کہتی ہیں کہ انہیں کلاس میں ایسی جگہ بٹھایا جاتا تھا جہاں سورج کی روشنی اتی تھی تاکہ وہ اپنی پڑھائی کرسکیں لیکن 8ویں جماعت کے بعد ان کی بینائی پوری طرح ختم ہو گئی ایسے میں الفیہ کے لیے تعلیم کا ایک لمبا سفر طے کرنا اسان نہیں تھا لیکن والدین نے ہمت نہیں ہاری الفیہ کے مطابق انہیں کالج میں داخلہ کے لیے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسکول والے تو اس کی بیماری سے واقف تھے لیکن کالج کے لیے نارمل کالج میں اس طرح کے ا سٹوڈنٹس کا داخلہ لینا اسان نہیں تھا لیکن مدھیامک کے بہتر نتیجے کو دیکھتے ہوئے شہر کے مشہور کالج میں الفیہ کا داخلہ بھی ہوا الفیہ کو اپنی تعلیم کے دوران ایک مددگار کی بھی ضرورت پڑتی تھی اپنے اس معاون کے ساتھ الفیہ نے اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا الفیہ کے مطابق تعلیم کا سفر جاری رکھنا ان کے لیے اسان نہیں تھا کیونکہ 8ویں جماعت تک نارمل طریقے سے پڑھنے کے بعد وہ اپنی انکھوں کی روشنی سے پوری طرح محروم ہو چکی تھیں ایسے میں انہوں نے بیرل سسٹم اور کمپیوٹر میں آواز سن کر اپنی تعلیم کے اگے کے سفر کو جاری رکھا۔ الفیہ نے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے The muslim search for identity contemporary in west bengal کے عنوان سے اپنا تھیسیس بھی مکمل کیا۔ اسکے بعد وہ  مقابلہ جاتی امتحان میں شامل ہوئی اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن انہیں نارمل کالج میں نوکری حاصل کرنے میں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا الفیہ نے کہا کہ امتحان پاس کرنے کے باوجود یہ کہا گیا کہ وہ نارمل اسٹوڈنٹس کو پڑھا نہیں سکتی لیکن الفیہ نے ایک لمبی جنگ لڑنے کے بعد یہ نوکری حاصل کی اور شہر کے سرکاری ساوتری گرلز کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اج وہ اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں الفیہ اپنی کالج کی مشہور ٹیچر ہیں اسٹوڈنٹس میں وہ کافی مقبول ہیں کیونکہ الفیہ کے مطابق ان کے کالج میں انے والی زیادہ تر سٹوڈنٹس متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں ان میں کئی ا سٹوڈنٹس ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے لیے تعلیم کا سفر جاری رکھنا اسان نہیں ہوتا ایسے میں الفیہ نہ صرف اسٹوڈنٹس بلکہ ان کے گھر والوں کے ساتھ بھی بات چیت کرتی ہیں اور تعلیم کی اہمیت سے واقف کراتی ہیں یہی وجہ ہے کہ الفیہ نہ صرف اپنی اسٹوڈنٹس بلکہ ان کے گھر والوں میں بھی کافی مقبول ہیں  گھر والے الفیہ سے متاثر ہو کر اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم بھی دلواتے ہیں الفیہ کے مطابق انہیں شروع سے ہی ٹیچر بننے کا شوق تھا ان کے مطابق وہ ٹیچر بن کر سماج کی خدمت کرنا چاہتی تھی ساتھ ہی ساتھ لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے لیے بھی کام کرنا چاہتی تھی الفیہ ضرورت پڑنے پر اپنی اسٹوڈنٹس کے گھر بھی پہنچ جاتی ہیں اور انہیں تعلیم کی اہمیت سے واقف کراتی ہیں الفیہ کے مطابق ٹیچر اپنے عمل اور طور طریقے سے اسٹوڈنٹس کو متاثر کرتا ہے ایسے میں ٹیچروں پر ایک بڑی ذمہداری ہے کہ وہ خود کو ایک بہترین مثال کے طور پر اسٹوڈنٹس کے سامنے پیش کریں الفیہ نے موجودہ سیاسی حالات میں بھی ٹیچروں کو اگے انے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اج جس طرح کے سیاسی حالات ہیں ایسے میں ٹیچروں کو ایک بڑی ذمہداری نبھانی ہوگی کیونکہ سوسائٹی کو ٹیچر سے زیادہ امیدیں ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اساتذہ کو بھی اگے انے کی ضرورت ہے ٹیچرز اگر سمجھدار ہو تو وہ موجودہ حالات میں بہت کچھ تعاون کرسکتا ہے ساتھ ہی ساتھ الفیہ نے بچوں میں موبائل کے بڑھتے رجحان کو بھی افسوسناک بتاتے ہوئے ٹیچروں کو اس بات پر زور دیا کہ وہ بچوں کو مطالعے کی طرف کیسے متوجہ کریں الفیہ کے مطابق ایک بچہ اگر اپنی زندگی میں کچھ بھی اچھا اور برا کر رہا ہوتا ہے تو اس کی اس عمل میں ٹیچرز کے پرچھائی بھی چھپی ہوتی ہے اسلئے معاشرے و سماج کو مضبوط بنانے کے لئے اساتذہ کو مجاہدین آزادی کی طرح کردار ادا کرنا ہوگا.