ایودھیا:رام مندر کی تعمیر جاری مگرکیا مسجد بھی بنے گی ؟مسلمان نا امید

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں نے فنڈ کی کمی کو تاخیر کا سبب قرار دیا ،مقامی مسلمان سرکار اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی سے مایوس

نئی دہلی ،19 جنوری :۔

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے  اور 22 جنوری کو پران پرتشٹھا کی تیاریاں مرکزی سطح پر جاری ہیں ،پورے ملک میں حکومتی سطح پر جشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ،بلکہ مرکزی حکومت نے 22 جنوری کو ہاف ڈے سرکاری اداروں میں تعطیل کا نوٹس بھی جاری کر دیا ہے ۔مگر وہیں دوسری  جانب رام مندر کی تعمیر کی جگہ س 25 کلو میٹر کے فاصلے میں مسجد کی تعمیر کا کیا حال ہے ؟تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ یہاں مسجد کی تعمیر کے نام پر ابھی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی ہے ،بلکہ یہ جگہ بکریوں کی چراگاہ بنی ہوئی ہے ۔

2019 میں، جب سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ پر اپنا فیصلہ دیا، تنازعہ والی زمین ہندو فریق کو دے دی گئی۔ ساتھ ہی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت کو ایودھیا میں مسجد بنانے کے لیے مسلم فریق کو پانچ ایکڑ زمین دینی چاہیے۔ اس فیصلے کے بعد یوپی حکومت نے ایودھیا سے تقریباً 25 کلومیٹر دور دھنی پور میں مسجد بنانے کے لیے زمین فراہم کی، لیکن اب تک وہاں کچھ نہیں کیا گیا۔

نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق مقامی باشندوں کے مطابق یہاں مسجد کی تعمیر کے نام پر محض ایک بورڈ آویزاں کر دیا گیا ہے ۔ ۔یہ بورڈ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کا ہے۔   بورڈ پر فاؤنڈیشن کے نام کے ساتھ ایک نقشہ بھی  ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسجد  تعمیر کے بعد کیسی نظر آئے گی۔

رام مندر کی تعمیر میں سرکار نے جس طرح دلچسپی دکھائی ہے اور بڑے پیمانے پر کورٹ کے حکم کے بعد کمیٹی کی تشکیل دے کر فوری طو پر مندر کی تعمیر کی گئی ہے اور اب پران پرتشٹھا کی جارہی ہے اس کو دیکھ کر مقامی لوگوں میں شدید مایوسی ہے اور ان کا یہی خیال ہے کہ سرکار کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مسجد کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو سکا ہے ۔ مقامی لوگوں کا سیدھے طور پر کہنا ہے کہ ’’آپ لکھ دیں کہ مسجد نہیں بنے گی۔‘‘ ایسا کیوں ہے،  انہوں نے کہا کہ مسجد بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پانچ ایکڑ اراضی لالی پاپ ہے، جس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ میڈیا والے یہاں روز آتے ہیں اور سوال پوچھ کر چلے جاتے ہیں ۔ جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ مسجد بننے والی ہے۔ کیا وہاں کچھ ہو رہا ہے؟ نہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم آپ کو کیا بتائیں؟ ہم نا امید ہیں۔

مسجد کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟ فاؤنڈیشن سے وابستہ اراکین اس کے پیچھے دو وجوہات بتاتے ہیں۔ اول، حکومت کی جانب سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) دینے میں تاخیر ہوئی اور دوسرا، فنڈز کی کمی۔

نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق دھنی پور کے رہائشی سہراب خان مسجد کی تعمیر میں تاخیر کا ذمہ دار این او سی حاصل کرنے میں تاخیر کو قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "مسجد کی تعمیر میں تاخیر کے پیچھے انتظامیہ کا کردار اورعمل ہیں۔ زمین حاصل کرنے کے بعد مسجد کا منصوبہ منظور کر لیا گیا۔ جب یہ نقشہ اتھارٹی کے پاس گیا تو انہوں نے پندرہ این او سی مانگے۔ این او سی لینے میں وقت لگا۔ اس کے بعد کہا گیا کہ یہ زرعی زمین ہے، اسے رہائشی بنانا پڑے گا۔ اس میں بھی وقت لگا۔ اس کے بعد عوام نے مطالبہ کیا کہ نقشے میں دکھائی گئی مسجد مسجد نہیں لگتی۔ ٹرسٹ کے لوگوں نے اس پر بحث کی اور ابھی دو ماہ قبل نیا نقشہ آیا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت ٹرسٹ کے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے۔ مزید چھ ایکڑ اراضی کا مطالبہ ہے۔ پورا پروجیکٹ   گیارہ ایکڑ میں تیار ہو گا کیونکہ مسجد کے ساتھ ساتھ کینسر ہسپتال، لاء کالج، میڈیکل کالج اور کمیونٹی کچن بھی بنایا جائے گا۔ اسی لیے مزید زمین کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

انڈو اسلامک کلچرل  فاؤنڈیشن کے رکن اور ترجمان اطہر حسین   کہتے ہیں، "ابھی یہی بنیادی وجہ ہے۔ ابھی تک، ہمیں اتنا عطیہ نہیں ملا ہے کہ ہم جس چیز کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس پر کام شروع کر سکیں – ایک ہسپتال، ایک مسجد اور ایک آرکائیو (جس طرح سے ہندو اور مسلمان 1875 میں اودھ میں ایک ساتھ لڑے تھے)۔ زیادہ   خرچہ اسپتال اور آرکائیوز وغیرہ کی تعمیر پر آ رہا ہے۔ جب ہمارے پاس پیسے ہوں گے تو ہم اس پر کام شروع کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر جس بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور جتنی دلچسپی مرکزی اور ریاستی حکومتیں لے رہی ہیں اس سے دھنی پور کے مقامی مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں مسلمانوں میں مایوسی اور نا امیدی ہے ۔ان کا سرے سے یہی کہنا ہے کہ مسجد کے نام پر مسلمانوں کو لالی پاپ دیا گیا ہے۔مسجد کی تعمیر کبھی ہوگی ہی نہیں۔