ایران اور یمن پر بھرپور حملہ؟؟؟اسرائیلی فوج نے تیاری شروع کردی
مسعود ابدالی
تل ابیب پر حوثیوں کے کامیاب میزائیل حملوں سے اسرائیل میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ غزہ نسل کشی سے اسرائیل کے عام لوگ براہ راست متاثر نہیں ہورہے تھے۔ اسلئے کہ یہ چھوٹی سی پٹی بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے اور اہل غزہ کی میزائیل اور ڈرون صلاحتیں خاصی محدود ہیں۔ لیکن لبنانی مزاحمت کاروں کے میزائیل اور ڈرونوں نے اسرائیلیوں کوچھٹی کا دودھ یاد دلادیا اور آتشگیر ڈرونوں کے تابڑ توڑ حملوں سے انکا شمالی علاقہ کھنڈر بن گیا۔کل ہی شمال بحالی ڈائریکٹوریٹ (NorthernRehabilitation Directorate) کے سربراہ، سابق وزیر ہاوسنگ Ze’ve Elkins نے رہائشی عمارات اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کی مرمت کیلئے چار ارب 40کروڑ ڈالر کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ ایلکنز صاحب کے مطابق تعمیر نو میں پانچ سال لگیں گے۔ مکانات برباد ہونے سے 60 ہزار کے قریب اسرائیلی بے گھر ہیں۔ایک لبنانی ڈرون نے نیتھن یاہو کی پرتعیش نجی رہائش گاہ کی خواب گاہ کی کنڈی بھی کھڑکادی۔ لبنانی مزاحمت کاروں سے جگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو اس اعتبار سے راحت نصیب ہوگئی کہ اب شمال کی جانب سے میزائیلوں کی بارش رک گئی ہے۔
تاہم ادھر کچھ دنوں سے حوثیوں نے اسرائیلیوں کی نام میں دم کررکھا ہے۔ یمنیوں کا ہدف وسطی اسرائیل خاص طور سے تل ابیب ہے۔ اسرائیل، یروشلم کو اپنا دارالحکومت قراردیتا ہے لیکن امریکہ اور دوسرے چند ملکوں کے سوا ساری دنیا کیلئے تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے جہاں تمام ملکوں کے سفارتخانے ہیں۔گویاحوتیوں نے قلبِ اسرائیل کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔اس ہفتے پے درپئے دومیزائیل حملوں نے عوام میں ہیجان برپا کردیا۔ بیس دسمبر کو تل ابیب کے مضافاتی علاقے کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن بدحواسی کے عالم میں پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے جو بھگڈر مچی اس میں طبی عملے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔اس حملے کے بعد اسرائیلیوں نے یمن کے دارالحکومت پر خوفناک فضائی حملہ کیا۔ فوج نے عوام کو یقین دلایا کہ حوثیوں کی میزائیل ٹیکنالوجی تہس نہس کردی گئی ہے۔حوثی میزائیلوں اور ڈرونوں کا باب ختم شد۔ ابھی اسرائیلی فوج کے ترجمان یہ شیخی بگھار ہی رہے تھے کہ تل ابیب کا مرکزی پارک خوفناک دھماکے سے گونج اٹھا۔ شام کے وقت وہاں تفریح اور کھیل میں مصروف لوگوں نے پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگادی اور ایکدوسرے سے ٹکرانے اور کچل جانے سے 16 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ پتہ چلا کہ حوثیوں نے آواز سے چار گنا تیز رفتار Hypersonicمیزائیل، مزاج پرسی کو بھیج دیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ نے اعتراف کیا کہ میزائیل کے سرپرآجانے تک انکے طیارہ شکن نظام کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور جب پتہ چلا تو تیکنیکی خرابی کی وجہ سے ڈرون کو نشانہ بنانے والے Interceptorsبروقت فائر نہ ہوسکے۔
اسرائیل پر میزائیل حملوں کے انتقام کیلئے امریکہ بہادر بھی اپنے لاڈلے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے امریکی بمباروں نے یمنی دارالحکوت صنعا پر قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ اتوار 22 دسمبر میں حوثیوں نے پہلی بار طیارہ شکن میزائیل کا استعمال کیا اور بحیرہ احمر میں تعینات طیارہ بردار امریکی جہازیوایس ایس ہیری ٹرومن سے اڑان بھرنے والا FA-18 Hornetجہاز مارگرایا۔امریکی مرکزی کمان نے حوثیوں کے دعوے کو مسترد کئے بغیر کہا کہ یہ جہاز غلطی سے اپنے ہی طیارہ شکن میزائیل کا نشانہ بن گیا۔ کمان کے اعلامئے میں کہا گیا کہ دونوں پائلٹ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے جنھیں امریکی بحریہ نے بحفاظت سمندر سے نکال لیا جبکہ ایک پائلٹ کو معمولی زخم آئے۔
غزہ حملے کے آغاز سے ہی ڈانلڈ ٹرمپ اور انکے قدامت اتحادی اسے ایران کا کارنامہ قراردے رہے ہیں۔ریپبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹر لنڈسے گراہمکھل کر کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اپنےقیدی چھڑانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایران کے جوہری اثاثوں، تیل و گیس کی تنصبات اور انکی سیاسی قیادت کو نشانہ بنائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے خیال میں بھی مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل کا ذمہ دار ایران ہے جسے fix کئے بغیر علاقے میں امن نہیں آسکتا۔اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ جوہری تنصیبات کے خاتمے سے ایران کا فوجی دبدبہاورتیل و گیس کے وسائل پر ضرب سے ریاست کی معاشی طاقت صفر ہوجائیگی۔ اگر اسی ہلے میں روحانی و سیاسی قیادت کو بھی راستے سے ہٹادیا جائے تو افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نواز عناصر کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہوگا۔حسن نصراللہ کے قتل پرنیتھن یاہو نے ایرانی روشن خیالوں کو نوید سنائی تھی کہ انکی توقع سے بہت پہلے تہران ملاوں کی گرفت سے آزاد ہوجائیگا۔
تل ابیب پر میزائیل حملوں کے بعد انھوں نے حوثیوں اور حوثیوں کے’سرپرستوں’ کے خلاف بے رحم، منظم و مربوط کاروائی کا عندیہ دیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے کہاکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام ممالک حوثیوں کو نہ صرف جہاز رانی بلکہ عالمینظم و نسق (World Order)کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم نے ‘ایران کے شیطانیمحور’ (غزہ اور بیروت) کو ریت کا ڈھیر بنادیا، اسی طرح ہم حوثیوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے، طاقت، عزم اور نفاست کے ساتھ۔
یمن اور ایران پر حملے کب اور کس نوعیت کے ہونگے انکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اسرائیل کی عسکری حکمت عملی پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یمن پر حملہ دنوں کی بات ہے۔ اس حملے میں اسی قسم کے بنکر بسٹر اور دوسرے ہلاکت خیز بم استعمال کئے جائینگے جو بیروت کی بلندو بالا عمارات پر گرائے گئے۔ خیال ہے کہ یہ اسرائیل و امریکہ کی مشترکہ کاروائی ہوگی۔ بیک وقت سعودی سرحد پر سعدہ، بحیرہ احمر کی الحدیدہ و عدن کی بندرگاہوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر المکلا اور الغیضہ کو نشانہ بنایا جائیگا۔