‘ایران اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی شکست ہوگی’
اقوام متحدہ کے سابق اسلحہ انسپکٹر اسکاٹ ریٹر کا سخت انتباہ،
غزہ ،30 جولائی :۔
غزہ میں اسرائیلی امریکہ اور برطانیہ کی حمایت سے انسانیت سوز مظالم روا رکھے ہوئے ہیں ۔اس کھلی ظلم اور بربریت کے نو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن دنیا صرف اس مظالم کی مذمت کر رہی ہے مگر عملی طور پر اسرائیل کا ہاتھ تھامنے میں نا کام ہے۔اس کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کی کھلی حمایت ہے ۔بظاہر طور پر غزہ تباہ ہو رہا ہے مگر حیرت انگیز طور پر حماس اسرائیلی ظلم و ستم کے سامنے سینہ سپر ہے ۔حماس کی استقامت اور عزم مصم نے اسرائیلی کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔اسرائیل نے غزہ کی اس جنگ کو توسیع کرنے کا اشارہ دیا ہے۔اس نے گزشتہ دنوں امریکہ میں امریکی سینیٹ سے خطاب کے دوران بار بار ایران کا نام لے کر ایران کو بھی اس جنگ میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن دریں اثنا ایک چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ہے جو اسرائیل کے لئے سبق ہے ۔
رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر اسکاٹ ریٹر نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ فوجی تصادم کیا تو اسے "ناقابل تصور شکست” کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریٹر، جو پہلے بھی مشرق وسطیٰ کے عسکری امور کے بارے میں آواز اٹھاتے رہے ہیں، نے ایران اور حزب اللہ دونوں کی اہم فوجی صلاحیتوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی تصادم اسرائیل کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
ریٹر کے تبصرے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سامنے آئے ہیں، اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور لبنان میں حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی فوجی حکمت عملی طویل عرصے سے اپنی تکنیکی برتری اور تیز، فیصلہ کن کارروائیوں پر انحصار کرتی رہی ہے،” ریٹر نے کہا۔ "تاہم، ایران اور حزب اللہ دونوں نے جدید ترین دفاعی اور حملے کی حکمت عملی تیار کی ہے جو اسرائیل کی صلاحیتوں کو مغلوب کر سکتی ہے۔
لبنان میں مقیم ایک شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ نے مبینہ طور پر راکٹوں اور میزائلوں کا ایک وسیع ذخیرہ جمع کر لیا ہے جو اسرائیلی سرزمین تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں خاص طور سےایران کی جدید میزائل ٹیکنالوجی اور علاقائی اتحادیوں کے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ریٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بے مثال چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ریٹر نے اس ممکنہ منظر نامے میں اہم کردار ادا کرنے والے کئی اہم عوامل پر روشنی ڈالی۔ سب سے پہلے، ایران کے جدید میزائل سسٹم اور فضائی دفاعی صلاحیتوں کی ترقی نے اس کی اسرائیلی فضائی حملوں کو روکنے اور جواب دینے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ مزید برآں، شام میں برسوں سے جاری تنازعات سے حاصل ہونے والے حزب اللہ کے تجربے اور حکمت عملی نے اسے مزید مضبوط مخالف بنا دیا ہے۔
ریٹر کی وارننگ اسرائیل-ایران-حزب اللہ تنازعہ کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی مضمرات کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس طرح کی جنگ علاقائی اور عالمی طاقتوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے اور مشرق وسطیٰ کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر ریاستہائے متحدہ اور یورپی ممالک، ممکنہ طور پر وسیع تر کشیدگی کو روکنے کے لیے مداخلت یا ثالثی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔