اہل خانہ کی رضا مندی سے ہوئی شادی  پر ریاست کو اعتراض کا حق نہیں

ہندو لڑکی سے شناخت چھپا کر شادی کرنے کے ملزم مسلم نوجوان کو سپریم کورٹ نے  ضمانت دی

نئی دہلی ،11 جون :۔

موجودہ حالات میں کسی مسلم نوجوان کا ہندو لڑکی کے شادی کرنا ایک ایسا جرم بن چکا ہے جس میں اس لڑکے کی ہی زندگی نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ کی بھی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے ۔اتنے کیس اور اتنی دفعات عائد کی جاتی ہیں کہ اس کا جیل سے باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے ۔لیکن اس کے بر عکس اگر ہندو نوجوان مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کو سیکورٹی کے ساتھ مالی اعانت کی فراہم کی جاتی ہے اور گھر واپسی کا نام دے کر اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے ۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایسے ہی ایک معاملے میں جس میں لڑکا مسلم اور لڑکی ہندو تھی ،اسے عدالت عظمیٰ نے ضامنت دے دی ۔لڑکے پر مذہبی شناخت چھپا کر شادی کرنے کا الزام عائد کیا تھا جو کورٹ میں جھوٹا ثابت ہوا ۔ اس معاملے میں عدالت نے کئی اہم تبصرے کیے، جس میں کہا گیا کہ دو بالغوں کے آپسی اتفاق سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ الگ الگ مذہب کے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس مسلم نوجوان کی ضمانت منظور کی جو تقریباً 6 مہینے سے جیل میں تھا۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے شخص کے ذریعہ دائر عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔ فروری 2025 میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے مسلم نوجوان کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد اس نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ شخص کو اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن 2018 اور بھارتیہ نیائے سنہتا 2023 کے تحت اپنی مذہبی شناخت چھپانے اور ایک ہندو خاتون سے دھوکے سے شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ریاست کو اپیل کنندہ اور اس کی اہلیہ کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، خاص کر جب ان کی شادی ان کے ماں-باپ اور خاندان والوں کی خواہش کے مطابق ہوئی ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ آگے کی کارروائی ان کے ساتھ رہنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ عدالت نے یہ بات بھی توجہ میں رکھی کہ ملزم تقریباً 6 مہینے سے جیل میں ہے اور فرد جرم پہلے ہی داخل کیا جا چکا ہے، جس کی بنیاد پر اسے ضمانت دی گئی۔

غور طلب ہے کہ عدالت کو مطلع کیا گیا کہ شادی دونوں خاندانوں کی جانکاری اور موجودگی میں مکمل ہوئی تھی۔ صدیقی نے شادی کے اگلے دن ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں اس نے واضح کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کرے گا اور اسے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ عرضی دہندہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بعد میں کچھ لوگوں اور تنظیموں کے ذریعہ بین مذہبی شادی پر اعتراض اٹھانے کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔