اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جانے والی ہے

 دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقدہ پریش کانفرنس میں جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے ملک کے سماجی  تانے بانے سے چھیڑ چھاڑ کو ملک کے جمہوری ڈھانچہ کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا

نئی دہلی 20/دسمبر :

ملک کے موجودہ حالات میں جہاں مذہب کے نام پر نفرت کا بازار گرم ہے ،ہر طبقہ پریشان اور تشویش کا شکار ہے ۔ خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف  حکمراں طبقے کے ذریعہ اشتعال انگیزی فروغ دی جا رہی ہے وہ ملک کی ہم آہنگی کے لئے مفید نہیں ہے ۔چنانچہ اس صورتحال سے ملک کا انصاف پسند طبقہ تشویش میں مبتلا ہے اور اس پر کھل کر اظہار بھی کر رہا ہے ۔ملک کی معروف ،قدیم اور سر گرم ملی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی نفرت کے اس خطرناک ماحول پر اپنی تشویشات کا اظہار کیا۔انہوں نے بابری مسجد ،گیان واپی اور فلسطین کے مسئلے سمیت متعدد سماجی اور سیاسی مسائل پر کھل کر بات کی۔

دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلپ میں جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے صحافیوں سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ ”ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑ ملک کو تباہ کردے گی، اس طرح کی کوئی بھی کوشش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مرکز رہاہے، امن واتحاد، رواداری اس کی روشن روایت رہی ہے مگراب کچھ طاقتیں اقتدارکے زعم میں صدیوں پرانی اس روایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، امن واتحادسے زیادہ انہیں اپنا سیاسی مفاداوراقتدارعزیزہے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن نئے نئے مذہبی نوعیت کے ایشوزکو اچھال کر امن واخوت کی زرخیززمین میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ اس سماجی تانے بانے کو اب توڑدینے کی سازش ہورہی ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ساتھ جوڑکے رکھا ہواہے، یہ ایک ایسی ڈورہے جو خدانخواستہ اگر ٹوٹ گئی تو نہ صرف ہماری صدیوں پرانی تہذیب کے لئے یہ ایک بڑاخسارہ ہوگابلکہ یہ روش ملک کو تباہی اوربربادی کی اس راہ پر ڈال دے گی جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی“۔

جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسے ایک صدی قبل ملک کی آزادی کے لئے علماء نے ایک پلیٹ فارم کے طورپرقائم کیا تھا چنانچہ علماء نے پوری قوت کے ساتھ آزادی وطن کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کرجیلوں کوآبادکرتے رہے اورپھانسی کے پھندے پر لٹکتے رہے، جان وطن عزیز  ہندوستان کے لئے دیتے رہے یہاں تک کہ ملک آزادہوگیااورملک آزادہوتے ہی جمعیۃعلماء ہند نے اپنے آپ کوسیاست سے الگ کرلیا،لیکن چونکہ اس کے اغراض ومقاصدمیں ملک کی سالمیت، اتحاداوربھائی چارہ کے فروغ کو اولیت حاصل ہے، اس لئے آزادی کے بعد مذہب کی بنیادپر ملک کی تقسیم کی اس نے پوری طاقت سے مخالفت کی تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے بزرگوں کے مرتب کردہ رہنمااصولوں پر آج بھی عمل پیرا ہیں وہ اپنا ہر کام مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے۔

میڈیا کے  نمائندوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھاستون کہاگیاہے، اس لئے اب وقت آگیاہے کہ ملک کا پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکاایک بڑاحلقہ ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرے اوراس بات کا جائزہ لے کہ پچھلے کچھ برسوں سے اس نے اپنے لئے جو لائن اختیارکی ہے آیا وہ صحیح ہے یاغلط اور کیا یہ لائن ملک کے مفادمیں ہے؟، مولانا مدنی نے پارلیمنٹ میں ہوئی حالیہ دراندازی اورہنگامہ آرائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا لیکن میڈیانے اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔،بلاشبہ یہ ایک سنگین معاملہ تھا مگرمیڈیانے کوئی سوال نہیں کیا،لیکن اگر ساگر شرماکی جگہ کوئی شکیل احمد ہوتاتویہی میڈیا آسمان سرپر اٹھالیتااورجرم کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ  ایک پوری کمیونٹی پر زمین تنگ کردی جاتی۔

تاریخ کو جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے:ارشد مدنی

۔  انہوں نے  مزید کہا کہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طورپر یہ بات کہی ہے کہ مندرتوڑکر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن اب کچھ فرقہ پرست لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اوراسے اکثریت کی فتح کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گالیکن اب جس طرح یہ نیاتنازعہ کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ایسی کسی بھی عبادت گاہ پر اب کوئی تنازعہ نہیں کھڑاکیا جائے گاجو 1947سے موجودہے۔

بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طورپر یہ بات کہی ہے کہ مندرتوڑکر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن اب کچھ فرقہ پرست لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اوراسے اکثریت کی فتح کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گالیکن اب جس طرح یہ نیاتنازعہ کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جائے گی توانہوں نے جواب دیا کہ قانون نے ہمیں جہاں تک جانے کا راستہ دیاہے ہم وہاں تک جائیں گے۔ سیکولرپارٹیوں کی اس کو لیکر خاموشی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی یہ قانون لے کر آئی تھی اسے بہرحال اس پر بولنا چاہئے۔ فلسطین تنازعہ پر بعض صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ تاریخ کو جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں کئے گئے سوالات کے جوابات میں  انہوں نے کہاکہ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ مملکت کا کوئی مذہب نہیں ہوگامگر افسوس کہ اب ملک میں سب کچھ اس کے الٹ ہورہاہے۔

مولانا مدنی نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اب ملک کے تمام شہریوں کو نہیں اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ہورہی ہے، ملک کے سیکولرڈھانچہ اورجمہوریت کے لئے یہ تباہ کن ہے۔