اپنے والد کی آخری خواہش کی تکمیل کے لیے بیٹا ممبئی سے راجوری کے لیے سائیکل پر روانہ

سرینگر، اپریل 4: جموں و کشمیر میں پابندیوں اور لاک ڈاؤن کے بعد ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔

راجوری میں اپنے بیمار باپ سے ملنے کے لiے ایک 29 سالہ شخص 2 اپریل کو ممبئی سے سائیکل پر روانہ ہوا۔

محمد عارف کے پاس صرف ایک روٹی، 800 روپیہ نقد رقم اور ایک چھوٹا سا بیگ ہے۔ لیکن اپنے والد کی آخری خواہش کو پورا کرنے کے عزم کے نتیجے میں وہ اس سفر پر نکل پڑے ہیں۔

عارف نے بتایا ’’مجھے دوپہر کے وقت فون آیا کہ میرے والد کے رشتہ داروں کے حملے کے بعد وہ نکسیر کا شکار ہوگئے ہیں۔ انھیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔ میں نے انھیں فون کیا لیکن وہ صرف آخری بار مجھے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

ممبئی سنٹرل میں چوکیدار کی حیثیت سے کام کرنے والے 29 سالہ محمد عارف ابوظہبی میں 11 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد اپنی نئی زندگی کی شروعات کے لیے صرف ایک ماہ قبل ممبئی پہنچے تھے۔

انھوں نے بتایا ’’میں ابوظہبی میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب میں ایک حادثے کا شکار ہوا۔ میرے پاس دستاویزات نہیں تھے جس کی وجہ سے مجھے 11 ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ میں ڈیڑھ سال پہلے گھر لوٹا تھا۔ پچھلے مہینے میں نئی زندگی کی شروعات کے لیے ممبئی آیا تھا۔‘‘

جب پورے ملک میں راستے بند اور عوام کی آمدورفت سڑکوں پر بند ہوگئی ہے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ممبئی سے اپنے والد سے ملاقات کے، جو بستر مرگ پر ہیں، پورا راستہ سائیکل پر طے کرے گا۔

انھوں نے بتایا ’’میں سائیکل کا مالک نہیں ہوں۔ میں نے ساتھی چوکیداروں میں سے ایک کو 500 روپے ادا کر کے یہ سائیکل ادھار لی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کب پہنچوں گا۔ لیکن میں عزم کر رہا ہوں کہ اپنا سفر جاری رکھوں چاہے جو بھی ہو۔ مجھے کوئی اور ذریعہ نہیں مل سکا کیونکہ وہاں کرفیو ہے اور کوئی گاڑی چل نہیں رہی ہے۔‘‘

تین بچوں کے والد عارف کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے بتایا ’’میری اہلیہ اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہے۔ میرے بچے بھی اس کے ساتھ ہی رہ رہے ہیں۔ میرا سب سے بڑا بچہ 11 سال کا ہے۔ اگرچہ وہ میرے گھر سے متصل ہی رہتی ہے، لیکن ہم الگ ہیں۔‘‘

اس کی حالت زار دیکھ کر ممبئی کے متعلقہ باشندوں نے عارف کی مدد کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی ہے۔ ایک سماجی کارکن دپیش ٹنک نے کہا ’’میں نے اسے راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جانے پر اٹل تھا۔ اب ہماری سب سے گزارش ہے کہ اس کی مدد کریں۔ وہ صرف ایک روٹی اور پانی کی بوتل لے کر جارہا ہے۔ میں لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں تاکہ اس کی تکلیفوں کو کسی حد تک دور کیا جاسکے۔‘‘