اونروا پر اسرائیلی پابندی سےامریکہ کو وسیع پیمانے پر شدید تنقید کا سامنا
تل ابیب، 30 اکتوبر
اسرائیلی پارلیمنٹ نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے زیر انتظام فلسطینیوں کو امداد پہنچانے والی ایجنسی "اونروا” پر پابندی عائد کرنے کا قانون منظور کر لیا۔ یہ قانون 90 روز کے اندر لاگو ہو جائے گا جب کہ اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔اسرائیل کے اس اقدام کو وسیع پیمانے پر بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے یہاں تک کہ یہ تل ابیب کے قریب ترین اتحادی واشنگٹن کو بھی مشکل میں ڈال دے گا۔
عالمی میڈیا کے مطابق بیرونی امداد کے امریکی قانون کے تحت واشنگٹن ان ممالک کو فوجی امداد پیش نہیں کر سکتا جو امریکہ کی انسانی امداد پہنچنے کی راہ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر رکاوٹ ڈالیں۔امریکہ نے 13 اکتوبر کو ایک خط میں اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ میں انسانی صورت حال بہتر بنانے کے لیے 30 روز کے اندر اقدامات کرے یا پھر امریکی فوجی امداد پر ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرے۔اسی خط میں واشنگٹن نے انروا پر پابندی کے فیصلے سے بھی خبردار کیا تھا۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو میلر نے منگل کے روز صحافیوں کے سامنے واضح کیا کہ امریکی قانون کے تحت اسرائیلی اقدام کے نتائج سامنے آئیں گے۔ادھر ناروے نے باور کرایا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کرے گا جس میں تل ابیب کی پاسدارایوں کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کی رائے طلب کی جائے گی۔ناروے کے وزیر خارجہ نے منگل کے روز کہا کہ "اس بات کی وضاحت اب بھی ایک منطقی امر ہے کہ کیا چیز قانونی ہے اور کیا غیر قانونی … خواہ یہ راتوں رات سیاسی تبدیلی کی صورت اختیار نہ بھی کرے”۔اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ "کیا اسرائیل امریکہ، دیگر ممالک اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں کو فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد کی پیش کش پر پابندی عائد کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے ؟