اوراب علی گڑھ کی جامع مسجد ! عدالت میں درخواست ،ہندو قلعہ ہونے کا دعویٰ

سپریم کورٹ کی جانب سے نئی عرضیوں پر سماعت پر پابندی کے باوجود دعوے داری  کا سلسلہ جاری

نئی دہلی ،07 جنوری :۔

ملک میں مساجدو اور درگاہوں کو مندر قرار دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی مذہبی مقام کی حیثیت سے متعلق دعویٰ کی عرضی پر سماعت کی پابندی کی باوجود انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے دعوے داری کا سلسلہ جاری ہے۔سنبھل ،بدایوں کے بعد اب علی گڑھ کی جامع مسجد کے بھی مندر ہونے کا دعویٰ کر دیا گیا اور ہے اس سلسلے میں معاملہ عدالت میں بھی پہنچ چکا ہے۔

واضح رہے کہ علی گڑھ کی یہ جامع مسجد مغل شہنشاہ محمد شاہ (1719-1728) کے دور میں 1724 میں گورنر ثابت خان نے تعمیر کروانا شروع کی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں چار سال لگے اور یہ 1728 میں مکمل ہوئی۔

آر ٹی آئی ایکٹوسٹ کیشو دیو گوتم نے علی گڑھ کی ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں مسجد کو ہندو قلعہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے پاس موجود ستون پر ‘اوم’ کا نشان موجودہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل معلومات کے مطابق جامع مسجد کو آثار قدیمہ سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ریکارڈ میں جائیداد کے طور پر درج نہیں کیا گیا۔

درخواست گزار نے الزام لگایا کہ یہ مسجد دراصل ہندوؤں کا بالائی قلعہ تھی جس پر مبینہ طور پر ناجائز قبضہ کر کے اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ نیز یہ کہ مسجد کے اطراف موجود دکانوں اور مکانات کا کرایہ وصول کر کے سرکاری جائیداد کا ناجائز استعمال کیا جا رہا ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر قبضہ ختم کر کے اس مقام کو سرکاری کنٹرول میں لے اور اسے ہندو ’تیرتھ استھل‘ قرار دے۔

غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے 12 دسمبر 2024 کو ایک عبوری حکم جاری کیا، جس کے تحت ملک بھر کی عدالتوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ مذہبی مقامات کی ملکیت سے متعلق نئے مقدمات درج نہ کریں اور نہ ہی سروے کا حکم دیں۔