انتخابی نتائج ، نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف مینڈیٹ ہیں
امیر جماعت اسلامی ہندسید سعادت اللہ حسینی نے حالیہ انتخابی نتائج کو نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف زبر دست مینڈیٹ قرار دیا
نئی دہلی،06جون
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے حالیہ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اپنے ووٹ کے ذریعے ایک مضبوط پیغام دینے پر ملک کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو ’ نفرت اور تقسیم کی سیاست کے خلاف زبردست مینڈیٹ ‘ قرار دیا۔ میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ” ہم اپنے ملک کے ووٹروں کو مبارک باد دیتے ہیں اور ان کی ستائش کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض سیاست دانوں کی جانب سے جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کی مہم چلانے کے باوجود بڑی دانش مندی کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ” انتخابی مہم کے دوران پروپپگنڈے، نفرت انگیز بیانات، فرقہ وارانہ الفاظ کا استعمال اور ووٹ حاصل کرنے اور ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر منصفانہ حربوں نے بہت سے خدشات پیدا کردیئے تھے۔ اس دوران بہت ساری تقاریر اخلاقیات سے عاری، مکمل طور پر پولرائزنگ اور تفرقہ انگیزی پر مبنی تھیں۔ ان سب کے باوجود عوام نے انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور اپنے دل کی بات ان تک پہنچا دی“۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” اترپردیش جیسی ریاستوں میں تبدیلی کے لیے فیصلہ کن ووٹ ایک واضح پیغام ہے کہ ہندوستان کے لوگ فرقہ وارانہ تنازعات ، مذہبی اختلافات اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ تو جامع ترقی اور سماجی انصاف کے خواہاں ہیں۔ اتحادی سیاست کا نیا دور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اب بھی وفاقیت، لامرکزیت، اختیارات کی تقسیم، جامع سیاست کے آئینی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بنیادی تبدیلی لانے والے کسان، پسماندہ طبقات اور مذہبی اقلیتیں ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں کوئی سیاسی پارٹی نظر انداز نہیں کرسکتی۔ سیاسی رہنماو?ں کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر سیاسی عمل میں معاشرے کے تمام طبقات کو شامل کرے اور ایسی فرقہ وارانہ و تفرقہ انگیز قوت بننے سے بچے جو آبادی کے صرف ایک حصے کی ہی نمائندگی کرتی ہو۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ” ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت عوام کے حقیقی مسائل جیسے معاشی سست روی، مہنگائی، بے روزگاری کو حل کرنے میں بھرپور دلچسپی لے گی اور مذہبی و ذات پات کی تفریق کے بجائے تمام طبقات اور برادریوں کے لیے مساویانہ رویہ اختیار کرے گی۔ حکومت کا رویہ جامع اور عوامی مفاد میں ہونا چاہئے۔ اس وقت ہمارے ملک میں خود مختار جمہوری اداروں کی ساکھ کو بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سیاسی دباو¿ اور حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کام کرنے کے الزامات سے ان اداروں کا وقار بہت مجروح ہوا ہے۔ ملک میں قانون سازی کرنے والے کو بھی یکطرفہ یا کسی مخصوص طبقے کا حامی نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی بھی فیصلہ باہمی مشاورت اور تمام متعلقین ( اسٹیک ہولڈرز) کی آراءپر غور کرنے کے بعد کیا جانا چاہئے۔ ہمارے ملک کی سیاست کی وفاقی نوعیت کی شبیہ بھی خراب ہوئی ہے، اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے “۔
محترم امیر جماعت نے کہا کہ ” ہندوستان کا آئین ایک فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے جس میں تمام شہریوں کی بھلائی کی ضمانت دی گئی ہے۔ ہمارے آئین کے اہداف میں سماجی انصاف اور عوام میں مضبوط بھائی چارے کو فروغ دینے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ہم نئی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آئین کے ان اہداف کا احترام کرے، حالیہ انتخابات میں لوگوں کے مینڈیٹ سے اسی بات کو تقویت ملتی ہے۔ حکومت ہر شہری کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو پسماندہ رہ گئے ہیں۔