انتخابی جلسوں کے درمیان بی جے پی رہنماؤں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی جاری
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو سرما،بی جےپی رہنما رمیش بدھوڑی اور ٹی راجہ سنگھ نے انتخابی ماحول خراب کرنے کی کوشش کی
نئی دہلی ،16 نومبر :۔
آئندہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے لیے انتخابی مہم زوروں پر جاری ہے، کچھ پارٹیاں اپنا کام شمار کرا رہی ہیں اور ملک میں بھائی چاے کے پیغام کے ساتھ میدان میں جا رہی ہے تو وہیں بی جے پی اپنی پرانی روش پر گامزن ہے اور اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی چاہے جتنے ترقیاتی کام شمار کرا کر عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہوں مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اپنی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مسلسل متنازعہ اور مسلم مخالف بیانات دے رہے ہیں۔ تاکہ انتخابات میں پولرائزیشن ہو سکے۔ اور لوگ ترقیاتی کاموں ،مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو بھول کر ہندو مسلم اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ کر سکیں۔
مدھیہ پردیش کے بھوپال میں ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو شرما نے کہا کہ اگر کوئی یوپی اور آسام میں کنہیا لال جیسا واقعہ کرتا تو اسے بھی 5 منٹ کے اندر ’’سر تن سے جدا‘‘ کہہ کر مار دیا جاتا۔
راجستھان کے ٹونک میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی ایم پی رمیش بدھوڑی نے کہا کہ اگر یہاں کانگریس جیت جاتی ہے تو لاہور میں خوشی ہوگی۔
اس کے علاوہ بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ نے ایک بار پھر مسلم مخالف بیان دیا اور کہا کہ اگر ہندو نوجوان مسلم لڑکیوں کو ورغلاتے ہیں تو ہم ان کی مالی اور قانونی مدد کریں گے۔یہی نہیں ٹی راجہ سنگھ نے سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہندو اکثریت کے سامنے مسلمانوں کو گالیاں دیں اور انہیں پاکستانی قرار دیتے ہوئے اشتعال انگیزی کی ۔اور تعجب یہ ہے کہ اب تک نہ تو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ان تمام بیانات پر ایکشن لیا ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی نے کوئی وارننگ جاری کی ہے۔ جبکہ یہ تمام بیانات عوامی جلسوں سے انتخابی ریلیوں کے درمیان دیے گئے ہیں۔