انتخابات کی آمد کے ساتھ ہندوتو کا شور،یوگی آدتیہ ناتھ کا پھر گیان واپی پر متنازعہ تبصرہ
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ ’گیانواپی مسجد نہیں بلکہ بھگوان وشواناتھ کا اوتار ہے ،بیان کی چوطرفہ تنقید،عدلیہ اور آئین کے وقار کی توہین کا الزام
نئی دہلی ،15 ستمبر :۔
ملک میں پھر انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ہریانہ اور جموں کشمیر میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کے ساتھ بی جے پی پر زور طریقے سے ہندوتو کا شور بلند کرنے میں مصروف ہو گئی ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ہفتہ کو ایک بار پھر وارانسی میں جامع مسجد گیان واپی پر متنازعہ تبصرہ کر کے ہندوتو کا شور بلند کر دیا ہے۔ دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی میں ” ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر میں ناتھ پنتھ کی شراکت” پر ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، آدتیہ ناتھ نےجامع مسجد گیانواپی کو "خود بھگوان وشواناتھ کا اوتار” قرار دیا اور ان لوگوں پر تنقید کی جو اسے مسجد کہتے ہیں۔یوگی آدتیہ ناتھ نے تمام آئینی وقار کو مجروح کرتے ہوئے اور ایک آئینی عہدے پر قائم رہتے ہوئے یہ تبصرہ کیا اور دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ لوگ گیانواپی کو مسجد کہتے ہیں جبکہ یہ خود بھگوان وشواناتھ کا اوتار ہے۔‘‘ انہوں نے افسانوی بابا آدی شنکر کی کاشی میں بھگوان وشوناتھ کے ساتھ "ملاقات” کے بارے میں ایک کہانی بھی شیئر کی، اس جگہ کی روحانی اہمیت پر مزید زور دیا۔
خیال رہے کہ جامع مسجد گیانواپی کے مسئلہ پر حالیہ دنوں میں ایک ضلعی عدالت نے ہندو فریق کی جانب سے نماز پر پابندی لگانے کی عرضی خارج کر دی ہے۔ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ مسجد پہلے سے موجود ہندو مندر کی باقیات پر بنائی گئی ہے، طویل قانونی تنازعات کا موضوع رہا ہے۔ ہندو فریق مندر کی برتری کے لیے دلیل دیتا ہے، جب کہ مسلم فریق ان دعوؤں کا مقابلہ کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ترجمان عباس حیدر نے آدتیہ ناتھ پر عدلیہ کی توہین کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ”ایسا لگتا ہے کہ وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، اور یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ چیف منسٹر، جنہوں نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، عدالتی کارروائی کا احترام نہیں کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ متعدد یگر سیاست دانوں نے ایک وزیر اعلیٰ کے طور پر آئین کا حلف لینے والے شخص کے ذریعہ عدلیہ اور آئین کی توہین پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن بیان ایسا دے رہے ہیں جیسے وہ آج بھی شدت پسند تنظیم ہندو یوا واہنی کے ایک کارکن ہیں۔ انہیں آئینی عہدے کے وقار کا احترام کرنا چاہئے۔
اس کے برعکس، یوپی بی جے پی کے ترجمان منیش شکلا نے آدتیہ ناتھ کے تبصروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا، "تاریخی، آثار قدیمہ اور روحانی شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ گیانواپی ایک مندر ہے۔” مزید برآں، ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت راجو داس نے وزیر اعلیٰ کے خیال کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ "صرف بے وقوف لوگ اسے مسجد کہتے ہیں۔”
ہندوستانی اکیڈمی، پریاگ راج کے تعاون سے منعقد ہونے والا یہ سیمینارسماجی ہم آہنگی کے موضوع پر تھا لیکن یوگی آدیہ ناتھ نے اپنے بیان سے یہ واضح کر دیا کہ یہ ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے تئیں نفرت کو فروغ دینے پر ہی یقین رکھتے ہیں۔