امریکہ کے ساتھ ٹیرف کا تنازع باہمی مذاکرات سے حل کیا جائے
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے امریکہ کے ساتھ ٹیرف تنازعہ پر اظہار تشویش کرتے ہوئے حکومت ہند سے خارجہ پالیسی میں توازن پیدا کر نے اپیل کی

نئی دہلی،09 اگست :۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر، سید سعادت اللہ حسینی نے بھارت کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے حوالے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کل ٹیرف کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ یہ فیصلہ غیر ضروری اور جانبدارانہ ہے ، اس سے نہ صرف بھارتی معیشت بلکہ امریکی معیشت اور عالمی تجارت کے استحکام کو بھی نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ بھارت کو روس سے خریداری پر سزا کے طور پر نشانہ بنایا جائے جبکہ دیگر متعدد ممالک بشمول یورپی یونین، روس سے خریداری کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ دنیا میں کسی بھی ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی خارجہ، تجارتی اور اقتصادی پالیسیاں خود وضع کرے، اقتصادی حربوں کے ذریعے کسی کو مجبور کرنا خطرناک اور عالمی تعاون کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
محترم امیر جماعت نے کہا کہ ’’ مجوزہ 50 فیصد ٹیرف تجارت میں ، بالخصوص محنت طلب شعبوں جیسے ٹیکسٹائل، قالین اور خوراک کی برآمدات سے وابستہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارکے لیے مشکلیں کھڑی کرے گا۔ اتنا زیادہ ٹیرف نہ صرف برآمد کنندگان کو نقصان پہنچائے گا بلکہ ہزاروں مزدوروں کے روزگار کے خاتمے کا سبب بھی بنے گا جس کا منفی اثر امریکی صارفین پر بھی پڑے گا، انہیں مہنگی اشیاء اور محدود مصنوعات کے انتخاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امیر جماعت نے حکومت ہند سے کہا کہ وہ اس حالیہ بحران سے سبق حاصل کرے اور اپنی سفارتی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔ اب وقت آچکا ہے کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔ یہ سامراجی طاقتیں نہ کبھی کسی خود مختار اور باوقار قوم کی وفادار دوست رہی ہیں اور نہ ہی رہ سکتی ہیں۔ ہمیں ان سے دوستی کے لیے اپنے اصولی موقف پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے ۔ بھارت کو چاہئے کہ وہ ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرے، نہ کہ امریکہ یا دیگر سامراجی قوتوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ قربت اختیار کرے۔ ہمارا موجودہ یکطرفہ جھکاؤ نہ تو ہمارے قومی مفاد میں ہے اور نہ ہی یہ معاشی یا سفارتی طور پر ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے فوری رد عمل کے حوالے سے درج ذیل نکات کی نشاندہی کی:
1: تجارتی تنوع:
"ہمیں جاپان، جنوبی کوریا، یورپی یونین اور آسٹریلیا جیسے شراکت داروں کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔ آسیان، برکس، اور دیگر علاقائی بلاکس کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا، ایسے بیرونی دباؤ کے خلاف ایک حفاظتی دیوار کا کام کرے گا”
2: متبادل معاشی قوتوں کو مضبوط بنانا:
بھارت کو چاہیے کہ وہ برکس جیسے متبادل معاشی اتحادوں کو مضبوط بنانے میں فعال قیادت کا کردار ادا کرے، تاکہ عالمی معاشی میدان میں طاقت کی متوازن تقسیم ممکن ہو سکے۔ یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی ملک غیر ضروری اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے خودمختار ممالک پر دباؤ نہ ڈالے یا ان کے خودمختار حقوق میں مداخلت نہ کرے۔
3: داخلی معاشی استحکام :
"بھارت کو گھریلو کاروباری سرگرمیوں کی حمایت کے لیے مخصوص معاشی اور مالیاتی اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت ، خاص طور پر محنت طلب پیداواری اور زرعی شعبے کو اس انداز میں مضبوط بنایا جانا چاہیے کہ بڑی معاشی طاقتوں پر انحصار کم ہو۔ مالیاتی نظم و ضبط کو اس طرح متوازن کیا جائے کہ بنیادی ڈھانچے، پیداواری صلاحیتوں اور انسانی وسائل کی بہتری کے لیے سرمایہ جاتی اخراجات میں اضافہ ممکن ہو۔”
اخیر میں امیر جماعت نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ اس چیلنج کو داخلی اصلاحات کے لیے ایک انتباہ کے طور پر استعمال کریں اور کہا کہ ’’ بھارت کو اپنی صنعتی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا، کاروبار کے لیے آسانیاں بڑھانی ہوں گی، ہنر مندی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور لاجسٹک اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔ ایک مضبوط معیشت بیرونی اقتصادی دباؤ کے خلاف بہترین حفاظتی آلہ ہے۔ حکومت کو ایک اصولی، خودمختار اور متوازن خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے جو ہماری معاشی خودمختاری کا تحفظ کرے اور ایک منصفانہ عالمی تجارتی نظام کی تشکیل میں بھی مؤثر کردار ادا کرے۔”