امریکہ نے فلسطین کے مفادات اور آزادی کو نظر انداز کیا

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اسرائیل اور فلسطین کے موجودہ تنازعہ کو مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی ناکامی کا نتیجہ قرار دیا

ماسکو،11اکتوبر:۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان خونریز تنازعہ جاری ہے۔جس پر دنیا کے ممالک مختلف فرقوں میں تقسیم ہیں ۔ایک طرف امریکہ اور فرانس جیسے بڑے ممالک اسرائیل کی کھل کر مدد کر رہے ہیں وہیں دوسری جانب روس جیسے ممالک  فلسطین کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر موقف اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو کہا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ تشدد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور فلسطینیوں کی ضروریات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

رپورٹ کے مطابق پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ کریملن دونوں متحارب فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور تنازع کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ پیسکوف نے خبردار کیا کہ تنازعہ دوسرے علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

پوتن نے کہا ’’میرے خیال میں بہت سے لوگ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی کی ناکامی کی ایک روشن مثال ہے۔ واشنگٹن نے امن کی کوششوں پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ عملی سمجھوتہ کرانے میں ناکام ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے فلسطینیوں کے مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ امن عمل میں روس کے اپنے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اسرائیل نے ایران کی حمایت یافتہ حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کا جواب زمینی حملے سے تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا، جب کہ امریکی صدر نے اسرائیل کی حمایت کا وعدہ کیا اور ان لوگوں کے خلاف انتباہ جاری کیا جو صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ بات چیت میں فوری جنگ بندی پر زور دیا۔ کریملن کے ترجمان پیسکوف نے کہا کہ ماسکو نے محدود پیش رفت کے باوجود سفارتی کوششوں کے لیے تمام فارمیٹس میں حصہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’لیکن ہم اب بھی کوششیں جاری رکھنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے تلاش کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘ تازہ ترین بحران کے پھوٹنے کے بعد سے کریملن نے دونوں فریقوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نمایاں کرتے ہوئے خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔