
امت وسط اور اسکی ذمہ داریاں
امتِ مسلمہ، امتِ وسط اور سب سے افضل امت کا اصل اور بنیادی کام اسلامی اصولوں کی گواہی دینا ہے
عزام انس
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
(البقرہ 143)
” اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ” امتِ وسط ” بنایا ہے۔ تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ ”
وسط کے لفظی معنی ہوتے ہیں معتدل کے۔۔۔ چونکہ یہاں یہ لفظ امت کے ساتھ آیا ہے، تو اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ایسی امت جس کا راستہ درمیانی راستہ ہے۔۔۔ ایک ایسی امت جو نہ راہبانیت (سب کچھ ترک کر دینا) اور نہ ہی دنیا پرستی (دنیا میں گم ہو جانا) کا راستہ اختیار کرتی ہو بلکہ ایک معتدل راستے پر گامزن ہو۔۔۔
وسط کے معنی صرف معتدل ہونے یا درمیانی ہونے کے ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی امت ہونے کے ہیں جو بہترین ہو۔۔۔ جو متوازن ہو۔۔۔ جو مثالی ہو۔۔۔ اور جو سب سے افضل ہو۔۔۔
امتِ وسط کے مفہوم کو سمجھنے سے پہلے آئیے ہم اسلامی نظام کو سمجھتے ہیں۔۔۔
اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں – روحانی، اخلاقی، سماجی، معاشی، اور سیاسی – کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام محض عبادات اور عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے، جو فرد سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر اللہ کے احکامات کی پیروی کا درس دیتا ہے، اور اسلامی نظام انتہا پسندی اور نرمی روی کے درمیان ایک متوازن راستہ ہے۔۔۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ امتِ وسط کے ساتھ اسلامی نظام کا ذکر کیوں؟؟؟
امتِ مسلمہ، امتِ وسط اور سب سے افضل امت کا اصل اور بنیادی کام اسلامی اصولوں کی گواہی دینا ہے۔۔۔ جیسا کہ درج بالا آیت میں کہا گیا ہے۔ یاد رہے ہمیں صرف اپنی زبان سے ہی اس بات کی شہادت نہیں دینی ہے، نہ ہی ہمیں لوگوں کو چیخ چیخ کر بتانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ لوگ آپ کی صداقت کو ماننے پر مجبور ہو جائیں۔۔۔ آپ کے اخلاق ایسے ہوں کہ لوگ آپ کے شیدائی ہو جائیں۔۔۔ آپ کا نظام ایسا ہو کہ غیر آپ کی پناہ میں آنا چاہے۔۔۔
امتِ وسط ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت کی بنائی اس دنیا میں عدل قائم کریں۔۔۔ ہم انصاف کے علمبردار بنے رہیں اور سعادت، شجاعت، حکمت دنیا کی اس زندگی میں ہمارا قیمتی اثاثہ ہونا چاہیے۔۔۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے، بلکہ مجھے افسوس اس بات کا ہو رہا ہے کہ جس قوم کو اتنے اعلیٰ اور پاک مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے، اس قوم کو مجھے اپنی ذمہ داری یاد دلانی پڑ رہی ہے۔۔۔ سیکولرازم، قوم پرستی، اور سرمایہ دارانہ نظام نے امت کو اپنے اصل مقصد سے پھیر دیا ہے۔۔۔ آج امت کا حال دیکھ کر، ہماری بے بسی اور لاچاری، ہم پر ہونے والے مظالم مجھے اس قوم کی سی یاد دلا رہے ہیں جسے ہم سے پہلے اسی پاک مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا جا چکا تھا۔۔۔
"جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مدت گزر جانے کے بعد اساسِ دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلقہ ضمنی اور فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے۔ پھر فضول اور لا یعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ انہیں اس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے ان بنیادی اصولوں سے دلچسپی رہی جن پر درحقیقت انسان کی فلاح اور سعادت کا مدار ہے۔” اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی رحمت سے محروم کر دیے گئے۔۔۔
اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت سے ہمارا غافل ہو جانا، مغربی افکار اور سیکولرازم کی اندھی تقلید، ہمارا سیاسی، معاشی اور سماجی لحاظ سے کمزور ہونا اور ہمارا فرقوں میں بٹ کر رہ جانا، یہ چند اہم وجوہات ہیں ہمارے زوال کی۔۔۔
حدیثِ رسول ﷺ ہے کہ "اگر تم نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر بدترین حکمران مسلط کر دے گا اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہماری یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم امر بالمعروف (نیکی کا حکم دیں)، نہی عن المنکر (برائی سے روکیں)، اور ایمان باللہ (اللہ پر کامل ایمان رکھیں)۔۔۔
یاد رہے کہ اسلام صرف فرد کی اصلاح تک محدود نہیں بلکہ معاشرے اور نظام کی بھی اصلاح چاہتا ہے۔۔۔ امتِ وسط کی حیثیت سے جو راہِ عمل ہمارا ہونا چاہیے، ہم اس سے غافل ہیں۔۔۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اس کے رسول کی پیروی کرتے ہوئے تمام عالم کی فکر کریں۔۔۔ ہمارا مقصد ایک ایسا اسلامی نظام قائم کرنا ہے جو عدل پر مبنی ہو۔۔۔ ہمیں کفر کے خلاف تو لڑنا ہے ہی، ساتھ ہی ہمیں ایک بہترین متبادل بھی پیش کرنا ہے۔۔۔ جو لوگ ہمارے ساتھ ظلم کا رویہ رکھتے ہیں، ان کے ساتھ ہمارا خیریت کا رویہ ہونا چاہیے۔۔۔
"ایک داعی اور مبلغ گروہ کے لیے جو دنیا کو راہِ راست پر لانے اور مسلکِ حق کی طرف دعوت دینے اٹھا ہو، درشت مزاجی، تند روی، اور تلخ کلامی مناسب نہیں، اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اٹھا ہے۔۔۔”
ہر وقت اپنے مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کیجیے، اپنی توانائیاں اس مقصد کے حصول کے لیے صرف کیجیے۔۔۔ صرف اور صرف اللہ کے لیے۔۔۔
یاد رہے کہ ہمارا مقصدِ حقیقی اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنا ہے اور امتِ وسط کی حیثیت سے تمام عالم کو گمراہیوں سے بچا کر صحیح راستے کی ترغیب دینا ہے۔۔۔ ایک عظیم مقصد انبیاء علیہم السلام کے بعد ہم لوگوں کو سونپا گیا ہے۔۔۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم امتِ وسط ہونے کے تقاضوں کو پورا کریں۔۔۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ آپ کا جینا اور آپ کا مرنا، آپ کا سانس لینا اور آپ کے دل کا دھڑکنا، اور آپ کی زبان کا حرکت کرنا۔۔۔ یہ عہد کر لیجیے کہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہوگا۔۔۔ہم اب تک جو کرتے آ رہے تھے اس کے لیے اللہ سے معافی طلب کیجیے اور اپنے آنے والے کل کو خالص اللہ اور اس کے دین کے لیے صرف کر دیجیے اور دین کے قیام کے لیے جدوجہد کیجیے۔۔۔ بعید نہیں کہ ہم وہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھیں جب تمام عالم میں دینِ اسلام کا بول بالا ہوگا، باطل مغلوب ہو کر رہ جائے گا اور صرف ایک روشنی اس تمام جہان کو منور کرتی رہے گی۔۔۔ بے شک وہ اللہ ہی کا نور ہوگا، ان شاء اللہ۔۔۔
یہ جان رکھیے کہ "اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہیں ہی نہیں، یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیش نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو، جو اللہ اور آخرت پر کامل اعتماد رکھتے ہوں اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دنیاوی مفادات اس امید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہوگا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانی ضائع نہ ہوگی۔۔۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دنیاوی مفاد ہی کی ہو تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے۔۔۔”
اللهم تقبل منا إنك أنت السميع العليم وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم۔۔۔
آمین یا رب العالمین۔۔۔!!!