الہ آباد ہائی کورٹ نے منو اسمرتی کو ’مقدس کتاب ‘ قرار دیا
منو اسمرتی پھاڑنے کے معاملے میں پرینکا بھارتی کو راحت دینے سے کیا انکار

پریاگ راج ،09 مارچ :۔
(دعوت ویب ڈیسک)
الہ آباد ہائی کورٹ نے منو اسمرتی کو ’ مقدس کتاب ‘ قرار دیتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل ( آر جے ڈی ) کی ترجمان اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو ) میں پی ایچ ڈی اسکالر پرینکا بھارتی کے خلاف لائیو ٹی وی مباحثے کے دوران مبینہ طور پر منو اسمرتی کے صفحات پھاڑنے کے الزام میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔
جسٹس وویک کمار برلا اور جسٹس انیش کمار کی بنچ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان کا یہ فعل ’ بد نیتی پر مبنی اور دانستہ ارادے ‘ کی عکاسی کرتا ہے ۔عدالت نے اسے قابل سزا جرم قرار دیا ہے ۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران کہا، "ہمیں لگتا ہے کہ دو ٹی وی چینلز ’انڈیا ٹی وی’ اور ‘ٹی وی 9 بھارت ورش’ کی طرف سے دکھائے جانے والے لائیو ٹی وی مباحثے میں ایک مخصوص مذہب کی مقدس کتاب ‘منواسمرتی’ کے صفحات کو پھاڑنے کا عمل اور کچھ نہیں بلکہ درخواست گزار کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔”
عدالت نے پرینکا بھارتی کو سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا، "ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ درخواست گزار ایک پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور وہ بحث میں ایک سیاسی جماعت کی ترجمان کے طور پر شریک تھیں۔ ایسے میں یہ بات قابلِ قبول نہیں کہ یہ کام غیر ارادی طور پر کیا گیا ہو۔”
ہائی کورٹ نے "منو اسمرتی” کے صفحات پھاڑنے کو جرم قرار دیتے ہوئے کہا، "اس معاملے میں ایک سیاسی جماعت کی ترجمان کی طرف سے لائیو ٹی وی مباحثے میں ایک مخصوص مذہب کی مقدس کتاب کے کچھ صفحات پھاڑنا، بظاہر ایک قابلِ تعزیر جرم کی نشاندہی کرتا ہے۔”
سماعت کے بعد عدالت نے پرینکا بھارتی کی درخواست مسترد کر دی اور ان کو کسی بھی قسم کی راحت دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ یہ درخواست پرینکا بھارتی نے علی گڑھ میں ان کے خلاف درج مقدمے کے بعد دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا جائے۔
خیال رہے کہ پرینکا بھارتی نے منواسمرتی پر جاری تنازعے کے دوران دو ٹی وی چینلز پر لائیو شو میں اس کے کچھ صفحات پھاڑ دیے تھے ۔اس کے بعد ان کے خلاف کئی مقامات پر احتجاج کیا گیا تھا۔ علی گڑھ میں ان کے خلاف ایف آئی آر 28 دسمبر 2024 کو نیشنل سُورن پریشد کے تنظیمی سکریٹری بھرت تیواری کی جانب سے درج کرائی گئی تھی۔ان پر دفعہ 299 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جو کہ کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بد نیتی پر مبنی حرکتوں سے متعلق ہے۔بھرت تیواری نے کہا تھا کہ پرینکا بھارتی کا یہ فعل ملک اور سماج میں بدامنی پھیلانے والا ہے۔ انہوں نے انڈیا ٹی وی کے مالک رَجت شرما اور ٹی وی 9 چینل کے مالک ورون داس پر بھی الزام لگایا تھا کہ وہ محض ٹی آر پی کے حصول کے لیے پرینکا بھارتی کے اس عمل کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔