الہ آباد : پروفیسر علی احمد فاطمی کے منہدم مکان کو دوبارہ تعمیر  کرنے کا حکم

یوپی حکومت کی کارروائی پر سپریم کورٹ سخت،2021 میں حکومت نے بلڈوزر کارروائی کی تھی

مشتاق عامر

پریاگ راج ،10 مارچ :۔

اردو کے مشہور ادیب پروفیسر علی احمد فاطمی اور ان کی بیٹی نائلہ فاطمی کا گھر بلڈوزر سے مسمار کئے جانے کے معاملے میں سپریم کو رٹ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ملک کی اعلیٰ عدالت نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات ایک "حیران کن اور غلط پیغام” بھیجتے ہیں۔عدالت نے مزید کہا "کچھ چیزیں ہوتی ہیں جنہیں آرٹیکل 21 کہا جاتا ہے ۔ عدالت نے یو پی حکومت کو حکم دیا کہ  “اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا۔ اگر آپ اس پر حلف نامہ دائر کر کے بحث کرنا چاہتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ کم شرمناک طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں دوبارہ تعمیر کرنے دیں اور پھر قانونی طور پر نوٹس جاری کریں۔’’

7مارچ 2021 کو الہ آباد کے لوکر گنج میں یو پی حکومت کے حکم سے پروفیسر فاطمی اور دیگر لوگوں کے مکان پر بلڈوزر چلا کر انہیں منہدم کر دیا گیا تھا۔ بلڈوزر ایکشن سے کچھ گھنٹے پہلے ہی مکان پر نوٹس چسپاں کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ دلیل دی گئی تھی کہ جس زمین پر تقریباً نصف درجن لوگوں کے مکانات بنے ہیں وہ مافیا عتیق احمد کی بے نامی جائیداد ہے۔

یہ معاملہ پہلے الہ آباد ہائی کورٹ گیا تھا اور پھر سپریم کورٹ پہنچا۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران یہ  تبصرہ کیا  ہے۔ الہ آباد انتظامیہ کی اس کارروائی پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس این کوٹیسور سنگھ پر مشتمل بینچ نے اسے “حیران کن اور غلط اشارہ” قرار دیا۔ جسٹس اوکا نے کہا، “کچھ چیزیں ہوتی ہیں جنہیں آرٹیکل 21 کہا جاتا ہے۔”

اٹارنی جنرل آر وینکٹار مانی نے ریاستی حکومت کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزاروں کو انہدام کے نوٹس کا جواب دینے کے لیے معقول وقت دیا گیا تھا۔

اس دلیل پر بینچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا “یہ نوٹس اس طرح کیوں چسپاں کیا گیا؟ اسے ڈاک کے ذریعے کیوں نہیں بھیجا گیا؟ کوئی بھی اس طرح نوٹس دے کر انہدام کیسے کر سکتا ہے؟ یہ سراسر زبردستی کا معاملہ ہے۔”

درخواست گزار ایڈوکیٹ ذوالفقار حیدر، پروفیسر علی احمد فاطمی، دو بیوہ خواتین  ایک اور شخص جن کے مکانات نازل پلاٹ نمبر 19، لوکر گنج، تھانہ خلد آباد، ضلع پریاگ راج پر منہدم کیے گئے، نے الہ آباد ہائی کورٹ میں انہدام کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

درخواست گزاروں کے مطابق 1 مارچ 2021 کو جاری کردہ انہدامی نوٹس انہیں 6 مارچ 2021 کو موصول ہوا اور اگلے ہی دن بغیر کوئی معقول وجہ بتائے بلدوزر سے مکان منہدم کر دیا گیا۔سینئر وکیل ابھیمنیو بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ نوٹس ہفتہ کی رات دیا گیا اور اتوار کو انہدامی کارروائی انجام دے دی گئی۔ ریاستی حکومت نے درخواست گزاروں کی زمین کو گینگسٹر سیاست داں عتیق احمد (جن کا 2023 میں پولیس حراست میں قتل ہوا) کی جائیداد  بتا کر منہدم کر دیا ۔بینچ نے اٹارنی جنرل وینکٹارامانی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں مانگ کی گئی تھی کہ معاملے کو الہ آباد ہائی کورٹ واپس بھیج دیا جائے۔

پروفیسر علی احمد فاطمی

اردو کے معروف ادیب اور شعبہ اردو الہ آباد یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر علی احمد فاطمی کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی نائلہ فاطمی ، ایڈوکیٹ ذوالفقار حیدر اور دو خواتین سمیت پانچ افراد نے الہ آباد ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی۔ گھر گرائے جانے کے اس واقعے کو چار برس ہو گئے ہیں لیکن پروفیسر فاطمی اب تک اس صدمے سے نکل نہیں پائے ہیں۔پروفیسر فاطمی کہتے ہیں کہ ان کا صرف گھر نہیں گرا بلکہ ان کی پوری دنیا اجڑ گئی۔ 7 مارچ 2021 کو ہونے والی انہدامی کارروائی کے بعد وہ اپنی اہلیہ رعنا فاطمی کو لے کر بیٹی کے مکان میں چلے گئے تھے۔ اس واقعے نے ان کی اہلیہ کے ذہنی دباؤ کو اتنا بڑھا دیا کہ تقریباً نو مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔پروفیسر فاطمی کے مطابق جس مکان کو پی ڈی اے نے گرایا اس کی زمین انہوں نے 1985 میں خریدی تھی۔ بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ چار کمرے بنوائے تھے۔ مکان منہدم ہونے کے بعد وہ بڑی بیٹی نائلہ فاطمی کے گھر میں رہنے لگے تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد ملنے والے فنڈ سے انہوں نے کریلی کالونی میں ایک فلیٹ خریدا اور اب وہیں بڑی بیٹی نائلہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔پروفیسر فاطمی نے بتایا کہ  معاملے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے لیکن سپریم کورٹ سے انہیں انصاف کی امید ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے بلدوزر کے ذریعے کی گئی اس انہدامی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی کے مکان کو اس طرح سے توڑنا سماج کو غلط پیغام دیتا ہے۔